شام میں ترک فوج کے داخل ہونے اور پیش قدمی کے بعد خطے کی صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ امریکی فوج کو پیچھے ہٹانے کے امریکی فیصلے کے بعد اب واشنگٹن نے ترکی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک اقتصادیات کو کمزور کرنے والی پابندیوں کا نفاذ کر دیا ہے۔ ان میں ترکی کے ساتھ ایک سو بلین ڈالر کی تجارتی ڈیل پر بات چیت روکنے کے ساتھ ساتھ ترکی سے فولاد کی امریکا درآمد پر بھی محصولات میں پچاس فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ترک اقتصادیات کو کمزور سے کمزور کر دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شام میں جاری پیش قدمی کا سلسلہ روکتے ہوئے فائر بندی کرے اور کرد جنگجوؤں سے مذاکرات کرے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے صاف صاف کہا ہے کہ ترکی فوری طور پر فوجی پیشقدمی کے سلسلے کو روک دے۔
امریکی صدر نے اپنے نائب صدر مائیک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن کو جلد ہی ترک دارالحکومت روانہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ امریکی نائب صدر پینس نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے مطابق شام میں متعین تقریباً ایک ہزار امریکی فوجیوں کو شام سے مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک منتقل کر دیا جائے گا۔ امریکی وزارت دفاع نے اُس ملک کا نام نہیں بتایا ہے جہاں شام سے نکلنے والے فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی مجموعی صورت حال کی نگرانی کے لیے ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ داعش کی سرگرمیوں پر بھی آنکھ رکھے گی تا کہ وہ سن 2014 کی طرح فعال نہ ہو سکے۔ پیر چودہ اکتوبر کو فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے امریکی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں ماکروں نے واضح کیا کہ ایسے ضروری اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے کہ دوبارہ سے جہادی تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ سرگرم اور متحرک نہ ہو سکے۔
شام میں امریکی صدر کے فیصلے کے مطابق ایک قلیل تعداد میں امریکی فوجی جنوبی شام میں واقع ایک فوجی اڈے پر رکھے جائیں گے۔ شام کی اردنی سرحد کے قریب طنف کے مقام پر امریکی فوجی اڈہ ہے۔ اندازوں کے مطابق امریکی فوج شام سے انخلا کے بعد اردن یا عراق میں تعینات کی جا سکتی ہے۔
ع ح ⁄ ع ت ( اے پی، روئٹرز)
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔