ترکی: پولیس اور فوج کے خلاف خونریز حملوں کی نئی لہر
18 اگست 2016![Türkei Elazig Anschlag Explosion](https://static.dw.com/image/19482485_800.webp)
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترک حکام نے جمعرات کو بتایا کہ بارہ گھنٹے سے بھی کم وقفے میں ہونے والے دو کار بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور دو سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ ان حکام نے کہا کہ ان کار بم دھماکوں کے پیچھے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی PKK کا ہاتھ تھا۔
سرکاری نیوز ایجنسی انادولُو کے مطابق دیگر تین فوجی اور ایک گارڈ ایک تیسرے حملے میں ہلاک ہوئے، جس کا نشانہ جمعرات کے روز جنوب مشرقی شہر بدلیس میں ایک فوجی قافلے کو بنایا گیا۔ انادولُو نے بھی اس حملے کے لیے کالعدم ’پی کے کے‘ کو ہی قصور وار ٹھہرایا ہے۔
اس تازہ ترین حملے میں، جو دیسی ساخت کے ایک بم کی مدد سے کیا گیا، چھ فوجی زخمی بھی ہو گئے۔ یہ بم اُس وقت پھٹا جب فوجیوں کی گاڑی قریب سے گزری۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے ترک ریاست کے خلاف برسرِپیکار باغیوں نے خاص طور پر صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے اپنی خونریز سرگرمیاں تیز تر کر دی ہیں۔
جمعرات کو علی الصبح الازيج نامی شہر میں پولیس کے ہیڈ کوارٹرز پر کیے جانے والے کار بم حملے میں تین پولیس افسر ہلاک اور ایک سو چھیالیس زخمی ہو گئے۔ اس دھماکے کی وجہ سے چار منزلہ عمارت ایک کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ ٹی وی فوٹیج میں اس عمارت سے سیاہ دھواں آسمان کی طرف بلند ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
جہاں دیگر حکام اس حملے کے لیے کرد باغیوں کو قصور وار قرار دے رہے ہیں، وہاں وزیر دفاع فکری اسیک نے انادولُو نیوز ایجنسی سے باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ باغی یہ کارروائیاں مذہبی لیڈر فتح اللہ گولن کی تنظیم کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ کہہ دیا کہ گولن کی تحریک اور امریکا اور یورپ میں دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی ’پی کے کے ‘ مل کر ایسے حملے کر رہے ہیں۔
دوسرا کار بم دھماکا گزشتہ رات ترکی کے مشرق میں کُردوں اور ترکوں کی ملی جُلی آبادی کے شہر وان میں ہوا، جس کی زَد میں آ کر دو پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ایک عام شہری بھی مارا گیا۔ ایرانی سرحد پر واقع اس شہر میں کم از کم تریپن شہری اور بیس پولیس افسر زخمی بھی ہو گئے۔