یورپی سربراہان کی کوشش ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین پناہ گزینوں کے مسئلے پر معاہدے کو حتمی شکل دینے سے قبل رکن ممالک میں مکمل اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے۔ یونین اور ترکی کے درمیان اجلاس کل شروع ہو رہا ہے۔
اشتہار
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے مطابق یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے معاہدہ طے پا گیا تو یہ ’کھیل بدل دے گا‘۔ مجوزہ معاہدے کے مطابق ترکی سے یونان آنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ سمندری راستوں کے ذریعے یونان پہنچنے والے شامی مہاجرین کو بھی ترکی بھیج دیا جائے گا لیکن ان کے بدلے ترک کیمپوں میں مقیم شامی شہریوں کو یورپ میں پناہ دی جائے گی۔
تاہم ڈیل کو حتمی شکل دیے جانے سے قبل ہی مختلف یورپی ممالک کی جانب سے مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔ فرانس اور چیک جمہوریہ نے خبردار کیا ہے کہ ترکی مہاجرین کے بحران کی آڑ میں یورپ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ بھی اس مجوزہ معاہدے کو مہاجرین اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین سے متصادم قرار دے چکی ہے۔
فرانس کا کہنا ہے کہ ان کا ملک انقرہ حکومت کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ معاہدے کے لیے شرائط طے کرے۔ فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس کا کہنا تھا کہ ترکی یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے موثر تعاون کرے اور یورپی یونین کو بلیک میل کرنے سے خبردار رہے۔
چیک جمہوریہ کے صدر میلوس زیمان کی رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ زیمان کا کہنا تھا کہ ترکی یورپی یونین سے کئی بلین یورو مزید مانگ رہا ہے جسے ’میرے جیسا لحاظ نہ کرنے والا شخص بلیک میل کرنے کی کوشش‘ کہے گا۔
قبرص اور ترکی کے درمیان ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے مسئلے پر دیرینہ اختلاف پایا جاتا ہے جو ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے ضمن میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اب قبرص نے مجوزہ معاہدے کی مخالفت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹسک کی کوشش ہے کہ ترکی کے ساتھ معاہدے طے کیے جانے سے قبل قبرص کی حمایت حاصل کر لی جائے۔ اس سلسلے میں سمٹ کے آغاز سے قبل قبرص کے صدر اور یورپی کمیشن کے سربراہ کے مابین ملاقات ہو رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹسک معاہدے کی جزیات طے کرنے کے لیے سمٹ سے پہلے ہی انقرہ کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ ٹسک کا کہنا تھا کہ معاہدے کو ایسی شکل دینا کہ وہ یونین کے تمام اٹھائیس رکن ممالک کے لیے قابل قبول ہو اور قانونی طور پر بھی اس میں کوئی سقم نہ ہو، ایک پیچیدہ کام ہے۔
جرمنی کی وفاقی چانسلر انگیلا میرکل، جنہوں نے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان معاہدہ طے کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا ہے، بھی اس ڈیل کے مندرجات جرمن پارلیمان کے سامنے پیش کرنے والی ہیں۔
شامی مہاجرین کا ترکی میں نئی زندگی کا آغاز
ترکی کے شہر ازمیر میں امدادی گروپوں اور رضاکارانہ طور پر سرگرم کارکنوں کی مدد سے شامی مہاجرین نے اپنا کاروبارِ زندگی نئے سرے سے شروع کیا ہے۔ ترکی کا یہ بندرگاہی شہر شام کے پچاسی ہزار مہاجرین کا مسکن ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شامی مہاجرین کی بڑھتی کاروباری سرگرمیاں
ازمیر کا علاقہ بسمانے، انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور یہاں مہاجرین کی ملکیت اسٹورز اور ریستوران کی تعداد شامی مہاجرین کے آنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر کاروبار اپنے ترک دوستوں کے نام پر کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بے روزگار اور بے یار و مددگار
مہاجرین کے لیے بلوں کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ تر بے روزگار افراد کیفے میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک جرمن لڑکی لیا ولمسن ان افراد کو مفت یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود جگہ اور مسائل
لیا ولمسن کو اس کام میں ایک مترجم بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ولمسن بسمانے میں مہاجرین کے گھروں میں جاتی ہے۔ اس تصویر میں وہ دو خواتین سے بات کر رہی ہے ، جن کے بچے نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہے۔ ولمسن کے بقول چھوٹے سے کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمروں میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بچے اور روزگار
اس علاقے میں لائف جیکٹس عام دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں اور بچے بھی یہیں کھیلتے ہیں۔ ازمیر میں موجود مہاجر بچے باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتے بلکہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرایہ اور بلوں کی ادائیگیوں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مہاجر کیمپوں کا قیام
ییلسن یانک یونین کے سابقہ ملازم ہیں۔ وہ آج کل ایک ایسی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام کر رہے ہیں، جسے مکمل ہونے کے بعد مہاجرین کا ایک مرکز بنا دیا جائے گا۔ ییلسن یانک کے بقول’’ مجھے مہاجرین کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
خود انحصاری
اطالوی نژاد ایک برطانوی رضاکار کرس ڈولنگ بھی ییلسن یانک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔’’ ہم نہیں چاہتے لوگ صرف امداد پر ہی انحصار کریں۔ ہم انہیں معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جگہ کی کمی
یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والی امدادی تنظیم ’میرسی کورپس‘ نے ازمیر میں اپنا ایک دفتر کھولا ہے۔ یہاں پر مستحق مہاجر خاندانوں میں پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم بہت کم کرائے پر گھر بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسمگلروں کا اڈہ
امدادی کارکنوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود زیادہ تر مہاجرین ازمیر انسانی اسمگلروں کی تلاش میں آتے ہیں۔ انتظامیہ اسمگلروں اور شہریوں کے مابین رابطوں کو روک نہیں پا رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محفوظ راستہ
یہ یونانی جزیرہ کی اوس کی تصویر ہے۔ ترک علاقے سیسما سے یہ یونانی ساحل زیادہ دور نہیں ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند مہاجرین زیادہ تر بحیرہ ایجیئن کو یہیں سے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔