’ترکی مہاجرین کے لیے محفوظ ہے‘: یونان تنقید کی زد میں
15 جون 2021
انسانی حقوق کے تحفظ اور تارکین وطن کی مدد کے لیے سرگرم درجنوں تنظیموں نے ترکی کو مہاجرین کے لیے محفوظ ملک قرار دینے پر یونان پر کڑی تنقید کی ہے۔ یونانی فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ ترکی پناہ گزینوں کو واپس اپنے ہاں قبول کرے۔
اشتہار
یونانی دارالحکومت ایتھنز سے منگل پندرہ جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن کی مدد اور انسانی حقوق کے تحفط کے لیے فعال درجنوں غیر سرکاری تنظیموں نے یونان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، جس میں ترکی کو تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ اس درجہ بندی کے بعد ایتھنز حکومت کے لیے جواز پیدا ہو جائے کہ وہ ترکی سے آنے والے ان مہاجرین کو واپس بھیج سکے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
ترکی 'محفوظ ملک‘ کیوں نہیں؟
ایسی 40 سے زائد تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ترکی پناہ کے متلاشی افراد اور مہاجرین کے لیے اس وجہ سے کوئی محفوظ ملک نہیں ہے کہ وہاں 1951 کے مہاجرین سے متعلق کنوینشن کے تحت پناہ کے متلاشی ایسے غیر ملکیوں کو بین الاقوامی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، جو یورپی ممالک کے شہری نہ ہوں۔
ان امدادی تنظیموں میں ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی یونانی شاخ، گریک ہیلسنکی مانیٹر اور کئی ایسی غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں، جو تارکین وطن یا خاص طور پر خواتین کی مدد کرتی ہیں۔
ان تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا، ''اس سال مارچ میں ترک حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ استنبول کنوینشن میں اپنی شمولیت سے دستبردار ہو جائے گی۔ تو ایسی صورت میں ترکی ان متاثرین کو بھی کوئی تحفظ فراہم کرنے کا پابند نہیں ہو گا، جنہیں صنفی بنیادوں پر تشدد اور تعاقب کا نشانہ بنایا گیا ہو۔‘‘
اشتہار
تارکین وطن سے متعلق یونانی وزارت کا فیصلہ
ان درجنوں تنظیموں کی طرف سے ترکی کے مہاجرین کے لیے محفوظ ملک ہونے سے متعلق یونانی حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید اس لیے کی جا رہی ہے کہ ایتھنز میں تارکین وطن سے متعلقہ امور کی یونانی وزارت نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک بڑا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت ترکی کو یہ درجہ دے دیا گیا تھا کہ وہ شام، افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور صومالیہ کے پناہ کے خواہش مند باشندوں کے لیے محفوظ ہے۔
ساتھ ہی اس یونانی وزارت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا، ''ترکی میں ان ممالک کے شہریوں کو ان کے مذہب، قومیت اور سیاسی سوچ کی بنا پر کسی بھی طرح کے خطرات کا سامنا نہیں ہوتا اور اسی لیے ایسے تارکین وطن کو یونان کے بجائے ترکی میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
یونان کو تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے کی جلدی
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ایتھنز حکومت اس بارے میں اب زیادہ تاخیر نہیں کرنا چاہتی کہ وہ ایسے تارکین وطن کو واپس اپنے مشرقی ہمسایہ ملک ترکی بھیجنا شروع کر دے، جو ترکی سے ہی یونان میں داخل ہوئے تھے اور جن کی یونان میں پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
گزشتہ 15 ماہ کے دوران ترک حکام ایسے تقریباﹰ ڈیڑھ ہزار مہاجرین اور تارکین وطن کو واپس اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں، جنہین یونان واپس ترکی بھیجنا چاہتا تھا۔
یونانی کمیپوں میں مہاجرین کا تعلق کن ممالک سے؟
یونان کے بہت سے جزائر ایسے ہیں جہاں قائم مہاجر کمیپ زیادہ تر ترکی سے کشتیوں کے ذریعے آنے والے تارکین وطن سے بھرے ہوئے ہیں۔
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Eurokinissi
10 تصاویر1 | 10
ان کیمپوں میں رہائش کی صورت حال بھی بہت غیر تسلی بخش ہے۔ وہاں مقیم پناہ کے متلاشی افراد کو تعلق زیادہ تر ایشیائی ممالک سے ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے کے مطابق یونانی جزائر پر مہاجر کیمپوں میں مقیم تارکین وطن میں سے 47 فیصد صرف ایک ملک افغانستان کے شہری ہیں۔ ان تارکین وطن میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جبکہ 15 فیصد جنگ زدہ ملک شام کے شہری اور نو فیصد افریقی ملک صومالیہ کے باشندے ہیں۔
اس سال جنوری سے لے کر اپریل تک کے عرصے میں ترکی سے مزید ایک ہزار سے زائد تارکین وطن یونانی جزائر تک پہنچے تھے۔
م م / ک م (اے ایف پی)
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔