ترکی کی فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو رکنیت سے روک دینے کی دھمکی
19 جولائی 2022ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پیر کے روز کہا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ ماہ کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے تو ترکی ان دونوں ملکوں کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی درخواستوں کو منجمد کردے گا۔
صدر ایردوآن کا کہنا تھا، "میں ایک بار پھر یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لیے ہماری شرائط پوری نہیں کیں تو ہم اس عمل کو روک دیں گے۔"
دہائیوں تک غیر جانبداری پر عمل پیرا سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد نیٹو میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن نیٹو اتحاد کے رکن ترکی نے ابتدا میں یہ کہتے ہوئے ان کی کوششوں کو روک دیا تھا کہ یہ دونوں اسکینڈنیویائی ممالک "دہشت گردی" کی حمایت کرتے ہیں۔
انقرہ کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ملک ترکی کے کرد عسکریت پسند گروپ کردستان ورکرز پارٹی (کے پی کے) کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے پی کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے اور وہ سویڈن سے بالخصوص فتح اللہ گولن کے پیروکاروں سمیت درجنوں مشتبہ "دہشت گردوں" کو حوالے کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ وہ ان پر سن 2016 میں ناکام بغاوت کی کوشش کا الزام لگاتا ہے۔
ترکی نے حمایت کیوں کی تھی؟
تاہم تینوں ملکوں نے جون میں میڈرڈ میں نیٹو سمٹ کے دوران ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے وعدے کے بدلے میں ان کی نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست کی حمایت کردی تھی۔
ایردوآن نے تاہم اپنی دھمکی دہراتے ہوئے کہا کہ اگر یہ دونوں ملک اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتے ہیں تو وہ ان کی نیٹو رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں "سویڈن فی الحال اچھی امیج کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے۔"
خیال رہے کہ 30 رکنی نیٹو میں کسی نئے ملک کو شامل کرنے کے لیے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا ضروری ہے۔
ترکی کیا چاہتا ہے؟
یوکرین پر روسی فوجی کارروائی کے بعد سویڈن اور فن لینڈ دنوں ملکوں میں نیٹو میں شمولیت کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
نیٹو میں ان کی شمولیت کی کوششوں کی ابتدا میں نیٹو اور اس کے بیشتر رکن ملکوں نے پرجوش خیر مقدم کیا تھا تاہم ترکی نے اس کی حمایت نہیں کی۔
انقرہ کا الزام ہے کہ یہ دونوں ممالک ترکی سے فرار ہوجانے والے کرد عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہے ہیں۔ وہ ان عسکریت پسندوں کی حوالگی کا مطالبہ کررہا ہے۔
ایردوآن نے ماضی میں کہا تھا کہ معاہدے کے تحت یہ بات طے پائی تھی کہ سویڈن 73 افراد کو ترکی کے حوالے کرے گا تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ سویڈن نے تاہم اس طرح کی کسی شرط سے انکار کیا ہے۔
اسکینڈنیویائی ممالک نے ترکی سے فرار ہونے والے بہت سے لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ ان میں ایردوآن کے مخالف سابق اراکین پارلیمان، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافی شامل ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)