ترکی پر امریکی پابندیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایردوآن
29 جون 2019
انقرہ حکومت کے روسی میزائل سسٹم خریدنے کے فیصلے پر صدر ٹرمپ کی طرف سے کی جانے والی شدید مخالفت کے سلسلے میں ترک صدر ایردوآن نے کہا ہے کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امریکا ترکی کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرے۔
اشتہار
جاپان کے شہر اوساکا سے، جہاں کل جمعے اور آج ہفتے کے روز جی ٹوئنٹی کی دو روزہ سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی، آج انتیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس سمٹ کے آخری روز اپنے امریکی ہم منصب سے ایک ملاقات کی۔
ٹرمپ کی ترکی کو دھمکیاں
امریکا اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ہیں۔ ترکی روس سے ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل نظام خرینا چاہتا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نہ صرف انقرہ کے ان ارادوں کے بہت خلاف ہیں بلکہ وہ اسی وجہ سے ترکی کو کئی طرح کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔
اس تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکا روسی میزائل سسٹم خریدنے پر ترکی کو ایف پینتیس طرز کے جدید ترین طیارے دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ واشنگٹن انقرہ کے خلاف متنوع قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر کا اپنے ترک ہم منصب سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ انقرہ روس کے ساتھ اسے دفاعی تجارتی سودے کو ہر حال میں منسوخ کرے۔
ایردوآن کا موقف: 'سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘
اوساکا میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے حاشے پر آج ٹرمپ اور ایردوآن کی جو ملاقات ہوئی اور جس کے بعد ترک صدر نے صحافیوں سے خطاب بھی کیا، اس میں ایردوآن کا موقف بڑا واضح اور غیر متزلزل تھا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کو یہ توقع نہیں ہے کہ واشنگٹن انقرہ کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرے گا۔
صدر ایردوآن کے الفاظ میں، ''اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دو اسٹریٹیجک پارٹنر ملک، جو نیٹو اتحاد کا بھی حصہ ہیں، ان کے مابین ایسا کچھ دیکھنے میں آئے۔ اس لیے میری رائے میں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ صدر ایردوآن کے مطابق ان کے اس موقف میں آج ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں کا بھی کافی عمل دخل ہے۔
ترک روسی ڈیل تو مکمل بھی ہو چکی
جہاں تک ترک روسی دفاعی تجارتی سمجھوتے کی ممکنہ منسوخی کی بات ہے، تو صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ ترکی نے روس سے جو جدید ترین S-400 ڈیفنس میزائل سسٹم خریدنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ ڈیل تو مکمل ہو بھی چکی۔ اس کے لیے ادائیگیاں بھی کی جا چکی ہیں اور اب تو ان میزائلوں کی فراہمی شروع ہونے والی ہے۔ رجب طیب ایردوآن کے بقول، ''یہ کاروبار تو مکمل ہو بھی چکا۔‘‘
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔
تصویر: picture alliance/abaca/K. Ozer
11 تصاویر1 | 11
ٹرمپ کا تازہ ترین متنازعہ بیان
جاپانی شہر اوساکا میں امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے انقرہ کے ساتھ دفاعی سیاسی اختلافات کے حوالے سے آج ایک اور ایسا بیان بھی دے ڈالا، جس کی ترکی کو کوئی توقع نہیں تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ ترکی تو خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں امریکا کی اتحادی کرد ملیشیا پر مسلسل حملوں کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔ ٹرمپ کے مطابق ترکی نے تو ان کردوں کا صفایا کر دینے کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا۔
ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ ترکی نے اپنے جو منصوبے بنا رکھے تھے، ان کے حوالے سے خود ٹرمپ نے صدر ایردوآن سے کہا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ٹرمپ کے الفاظ میں، ''وہ تو کردوں کا صفایا کرنے جا رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے اور پھر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
م م / ع ب / ڈی پی اے، روئٹرز
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔