ترکی کے ساتھ تنازعہ، یونان ’طاقتور‘ ہتھیار خریدے گا
13 ستمبر 2020
بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں قدرتی وسائل کے حصول کی خاطر ترکی اور یونان کے درمیان تناؤ ہے۔ امریکا نے اس معاملے کے حل کے لیے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔
اشتہار
یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوٹاکِس نے کہا ہے کہ ملکی فوج کو جدید بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کی خاطر ایتھنز حکومت جدید اور طاقتور ہتھیار خریدے گی۔ ہفتے کے دن مٹسوٹاکِس نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا، جب بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں قدرتی وسائل کے حصول کی خاطر ترکی یونان کے درمیان تناؤ موجود ہے۔
یونانی وزیر اعظم نے شمالی شہر تھسالونکی میں ایک عوامی خطاب میں کہا، ''اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی فوج کی صلاحیت کو بڑھایا جائے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک جامع پروگرام کے تحت ملکی دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔
وزیر اعظم مٹسوٹاکِس نے کہا کہ ان کی حکومت اٹھارہ فرانسیسی رافائل جیٹ طیارے، چار جنگی بحری جہاز اور چار نیوی ہیلی کاپٹر خریدے گی۔ انہوں نے کہا کہ پندرہ ہزار نئے فوجی بھی بھرتی کیے جائیں گے جبکہ سائبر حملوں کی روکنے کی خاطر سرمایہ کاری کی جائے گی۔
وزیر اعظم مٹسوٹاکِس کے مطابق ملکی فوجی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ایںٹی ٹینک ہتھیار، بحری تارپیڈوز اور ایئر فورس کے لیے میزائلز بھی حاصل کیے جائیں گے۔
حالیہ عرصے میں مغربی عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ممالک یونان اور ترکی میں عسکری تصادم کا خطرہ زیادہ ہو گیا ہے۔ تازہ کشیدگی اس وقت ہوئی، جب گزشتہ ماہ ترک فوج نے بحیرہ روم کے ایسے متنازعہ پانیوں میں تحقیقاتی ٹیمیں روانہ کیں، جن پر یونان اپنا حق جتاتا ہے۔ جواب میں یونان نے بھی اپنے جنگی بحری جہاز ان پانیوں میں روانہ کر دیے۔
اس تنازعے میں فرانس حکومت یونان کی حمایتی ہے۔ اسی لیے فرانسیسی وزیر دفاع فلورنس پارلی ایتھنز اور پیرس کے مابین ہونے والہ اسلحہ ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ رافائل طیارے بنانے والی داسو ایوی ایشن نے بھی یونانی آرڈر پر 'خوشی‘ کا اظہار کیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کو خبردار کیا ہے کہ ترک افواج بحیرہ روم کے مشرقی پانیوں میں داخل ہو کر 'سرخ لکیر‘ عبور نہ کریں۔ ہفتے کے دن ترک صدر نے جواب میں ماکروں کو کہا کہ 'ترکی کے لیے مسائل‘ پیدا نہ کیے جائیں۔
وزیر اعظم مٹسوٹاکِس کا الزام ہے کہ یورپ کی مشرقی سرحدوں پر 'خطرہ‘ بن کر ترکی علاقائی سلامتی کو متاثر کر رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ انقرہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں لیکن ترکی کو 'اشتعال انگیز اعمال‘ ترک کرنا ہوں گے۔
یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوٹاکِس نے کہا، ''ہمیں مذاکرات کی ضرورت ہے لیکن گن پوائنٹ پر ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو اس تنازعے کے خاتمے کے لیے دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع بھی کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے یونان اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ کسی محاز آرائی کے بجائے سفارتی حل تلاش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو کے اتحادی ممالک کے مابین اس طرح تنازعے سے صرف دشمن عناصر کو ہی فائدہ ہو گا۔
اس تنازعے کے حل کی خاطر مائیکل پومپیو کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یونانی اور ترک رہنماؤں سے گفتگو کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے ایردوآن اور مٹسوٹاکِس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ گفتگو میں زور دیا کہ اس تنازعے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔