ترکی کے ساتھ معاہدہ ختم کرو، سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر
19 مارچ 2017یورپی یونین اور ترک حکومت کے درمیان ٹھیک ایک برس قبل ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ مہاجرین کو وہ اپنے ہاں سے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے۔ یہی وہ راستہ تھا، جس کے ذریعے سن 2015ء میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔ اس معاہدے کے بعد اس راستے سے یورپی یونین میں داخل ہونے مہاجرین کی تعداد نہایت کم ہو چکی ہے۔
ہفتے کے روز اس معاہدے کے خلاف اور مہاجرین کے حق میں ایتھنز میں مظاہرہ پارلیمان کی عمارت کے سامنے کیا گیا۔ اس مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کی جماعتوں، نسل پرستی کے مخالف گروپوں اور مہاجرین کی تنظیموں کی جانب سے کیا گیا تھا۔ مظاہرے میں شام اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے تارکین وطن بھی اپنے بچوں کے ساتھ شریک تھے۔
گزشتہ برس 18 مارچ یورپی یونین اور ترکی نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے ذریعے مہاجرین کے بہاؤ کو روکا گیا تھا۔ اس راستے سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھے۔ اس معاہدے میں ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ غیرقانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو قبول کرے، جب کہ اس کے بدلے ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو یورپی یونین میں بسانے کے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی کو اربوں یورو کی امداد کے ساتھ ساتھ اس کے شہریوں کی شینگن ممالک میں ویزا فری انٹری کا وعدہ بھی اس معاہدے کا حصہ تھا، جب کہ معاہدے کی اِس شق پر اب تک عمل درآمد ممکن نہیں ہو پایا ہے۔
گزشتہ برس مارچ ہی میں بلقان ریاستوں نے مہاجرین کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کر دی تھیں، جس کے بعد بہت سے مہاجرین یونان میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت بھی قریب نو ہزار مہاجرین یونان میں سیاسی پناہ کے لیے جمع کرائی گئی اپنی درخواستوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔ یونانی حکومت یہ تعداد 14 ہزار بتاتی ہے، جس میں شامی مہاجرین بھی شامل ہیں۔