’ترکی کے ساتھ معاہدہ مثالی نہیں لیکن اور کوئی حل بھی نہیں‘
شمشیر حیدر28 اپریل 2016
یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر کا کہنا ہے کہ یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگرچہ مثالی نہیں لیکن مہاجرین کا بحران ختم کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر کرسٹوس سٹِلیانیڈس کا کہنا ہے کہ یورپ اور ترکی کے مابین مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے طے پانے والا معاہدہ مثالی تو نہیں ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی متبادل حل بھی موجود نہیں ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں اس معاہدے کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھا رہی ہیں۔
یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر نے یہ باتیں فرانسیسی سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ یورپی کمشنر کا کہنا تھا، ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ معاہدہ متنازعہ رہے گا لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ترکی کے بغیر ہم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے اور ترکی کے ساتھ یہ متنازعہ معاہدہ طے کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔‘‘
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
فرانسیسی قانون دانوں نے یورپی کمشنر کی آمد پر اس معاہدے کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ متنازعہ معاہدہ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے لیے خطرات کا باعث بنے گا۔
کرسٹوس سٹِلیانیڈس کے فرانسیسی سینیٹ کے دورے کے موقع پر سب سے زیادہ تنقید ترکی کی جانب سے یورپی یونین کو دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں کی گئی۔ ترک صدر اور وزیر اعظم نے اپنے حالیہ بیانات میں کہا تھا کہ اگر یورپی یونین نے اس معاہدے میں ترکی سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو ترکی بھی معاہدے پر عمل درآمد روک دے گا۔ یورپی کمشنر نے ترک دھمکی کو ’بدقسمتی‘ قرار دیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین انقرہ سے وابستہ مفادات کی وجہ سے ترکی میں انسانی حقوق اور آزادیٴ اظہار پر لگائی جانے والی پابندیوں کا نوٹس نہ لے کر یورپ کی اپنی اقدار ہی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کا بھی کہنا تھا کہ یورپ نے خود کو انقرہ حکومت کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے اور مستقبل میں اس معاہدے کی وجہ سے کیا صورت حال پیدا ہو گی، اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
یورپی کمشنر کا کہنا تھا کہ ان سبھی عوامل کے باوجود اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہییں کیوں کہ اس پر عمل درآمد کی وجہ سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی یومیہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر محض چند درجن یومیہ تک محدود ہو گئی ہے۔
سٹِلیانیڈس کا مزید کہنا تھا، ’’جنگ زدہ ملکوں سے بھاگ کر لوگ یورپ کی جانب ہجرت کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ موجودہ وقت یورپ کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘‘
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔