1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ترکی کے ساتھ معاہدہ مثالی نہیں لیکن اور کوئی حل بھی نہیں‘

شمشیر حیدر28 اپریل 2016

یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر کا کہنا ہے کہ یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والا معاہدہ اگرچہ مثالی نہیں لیکن مہاجرین کا بحران ختم کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

Türkei Dikili Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر کرسٹوس سٹِلیانیڈس کا کہنا ہے کہ یورپ اور ترکی کے مابین مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے طے پانے والا معاہدہ مثالی تو نہیں ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی متبادل حل بھی موجود نہیں ہے۔

آسٹریا نے پناہ کے سخت ترین قوانین متعارف کرادیے

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں اس معاہدے کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھا رہی ہیں۔

یورپی یونین کے انسانی بنیادوں پر امداد کے کمشنر نے یہ باتیں فرانسیسی سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ یورپی کمشنر کا کہنا تھا، ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ معاہدہ متنازعہ رہے گا لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ترکی کے بغیر ہم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے اور ترکی کے ساتھ یہ متنازعہ معاہدہ طے کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔‘‘

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

02:33

This browser does not support the video element.

فرانسیسی قانون دانوں نے یورپی کمشنر کی آمد پر اس معاہدے کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ متنازعہ معاہدہ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے لیے خطرات کا باعث بنے گا۔

کرسٹوس سٹِلیانیڈس کے فرانسیسی سینیٹ کے دورے کے موقع پر سب سے زیادہ تنقید ترکی کی جانب سے یورپی یونین کو دی جانے والی دھمکیوں کے بارے میں کی گئی۔ ترک صدر اور وزیر اعظم نے اپنے حالیہ بیانات میں کہا تھا کہ اگر یورپی یونین نے اس معاہدے میں ترکی سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو ترکی بھی معاہدے پر عمل درآمد روک دے گا۔ یورپی کمشنر نے ترک دھمکی کو ’بدقسمتی‘ قرار دیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین انقرہ سے وابستہ مفادات کی وجہ سے ترکی میں انسانی حقوق اور آزادیٴ اظہار پر لگائی جانے والی پابندیوں کا نوٹس نہ لے کر یورپ کی اپنی اقدار ہی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کا بھی کہنا تھا کہ یورپ نے خود کو انقرہ حکومت کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے اور مستقبل میں اس معاہدے کی وجہ سے کیا صورت حال پیدا ہو گی، اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

یورپی کمشنر کا کہنا تھا کہ ان سبھی عوامل کے باوجود اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہییں کیوں کہ اس پر عمل درآمد کی وجہ سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی یومیہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر محض چند درجن یومیہ تک محدود ہو گئی ہے۔

سٹِلیانیڈس کا مزید کہنا تھا، ’’جنگ زدہ ملکوں سے بھاگ کر لوگ یورپ کی جانب ہجرت کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ موجودہ وقت یورپ کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘‘

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں