1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہعراق

ترکی کے صدر رجب ایردوآن کاعراق کا دورہ

22 اپریل 2024

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پیر کے روز سے عراق کے سرکاری دورے کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران دوطرفہ تعلقات اور علاقائی سلامتی پربات چیت کی جائے گی۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن ہمسایہ ملک عراق کے  پہلے سرکاری دورے پر پیر کو بغداد پہنچ گئے ہیں
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن ہمسایہ ملک عراق کے  پہلے سرکاری دورے پر پیر کو بغداد پہنچ گئے ہیںتصویر: Turkish Presidency/Murat Cetinmuhurdar/Handout/Anadolu/picture alliance

 کئی برسوں بعد ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن ہمسایہ ملک عراق کے  پہلے سرکاری دورے پر پیر کو بغداد پہنچ گئے ہیں۔ اس دورے کے ایجنڈے میں پانی، تیل اور علاقائی سلامتی جیسے اہم موضوعات پر بات چیت شامل ہے۔

ایردوآن شمالی عراق کے خود مختار کردستان علاقے کے دارالحکومت اربیل میں حکام سے ملاقات کرنے سے قبل بغداد میں عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی اور صدر عبداللطیف راشد سے ملاقات کریں گے۔

عراقی وزیراعظم سوڈانی نے حال ہی میں واشنگٹن کے دورے کے موقع پر اٹلانٹک کونسل میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا،''عراق اور ترکی کی تاریخ ایک ہے، یہ نہ صرف ایک دوسرے سے مشترکہ مفادات اور مواقع میں مماثلت رکھتے ہیں، لیکن ان کے مسائل بھی ایک جیسے ہیں۔‘‘

انہوں نے ایردوآن کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں کہا،''پانی اور سلامتی کے معاملات ایجنڈے میں سرفہرست ہوں گے۔‘‘ ایردوآن دوہزار گیارہ کے بعد اب عراق کا دورہ کر رہے ہیں۔

عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی، ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا بغداد اییرپورٹ پر استقبال کرتے ہوئےتصویر: Turkish Presidency/Murat Cetinmuhurdar/Handout/Anadolu/picture alliance

ترکی نے عراق میں مشتبہ کرد عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا

یہ دورہ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اور اسرائیل اور ایران کے درمیان حملوں کے سبب علاقائی کشیدگی کے تناظر میں عمل میں آرہا ہے۔

عراقی وزیراعظم سوڈانی کے خارجہ امور کے مشیر فرہاد علاالدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایردوآن عراقی حکام کے ساتھ جن اہم موضوعات پر بات کریں گے ان میں ''سرمایہ کاری، تجارت دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے سیکورٹی پہلو، پانی کا انتظام اور آبی وسائل‘‘ شامل ہیں۔ علاالدین اس دورے کے دوران مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط کی توقع کررہے ہیں۔

پانی کے وسائل کی تقسیم کے تنازعہ پرگفتگو بھی اس دورے کا ایک اہم نکتہ ہوگی،  ترکی کی طرف سے  مشترکہ دجلہ اور فرات کے دریاؤں پر قائم کیے گئے اپ اسٹریم ڈیموں پربغداد سخت تنقید کرتا ہے، جس کی وجہ سے عراق میں پانی کی کمی مزید بڑھ گئی ہے۔ ایردوآن نے کہا،''پانی کا مسئلہ عراقی فریق کی طرف سے دی گئی درخواستوں‘‘ کے بعد ان کے دورے کا ''ایک اہم ترین نکتہ‘‘ ہو گا، اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی جو ان کی بھی خواہش ہے۔‘‘

 کشیدگی کی ایک اور وجہ عراقی تیل کی برآمدات بھی ہے۔ قانونی تنازعات اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے ایک سال سے زائد عرصے سے ایک بڑی پائپ لائن بند پڑی ہے۔

برآمدات کو پہلے آزادانہ طور پر خود مختار کردستان علاقے کی طرف سے، بغداد میں مرکزی انتظامیہ کی منظوری یا نگرانی کے بغیر، ترکی کی بندرگاہ سیہان کے ذریعے فروخت کیا جاتا تھا۔ کردستان کی ایسوسی ایشن آف دی پیٹرولیم انڈسٹری جو خطے میں سرگرم بین الاقوامی تیل کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے اندازوں کے مطابق تیل کی رُکی ہوئی فروخت عراق کے لیے 14 بلین ڈالر سے زیادہ کی آمدنی کا تخمینہ ظاہر کرتی ہے۔

عراق اور ترکی کی تاریخ ایک ہے، یہ ایک دوسرے سے مشترکہ مفادات اور مواقع میں مماثلت رکھتے ہیںتصویر: Pond5 Images/IMAGO

ترکی نے عراق میں ہلاکت خیز گولہ باری کے الزامات کو مسترد کر دیا

عراقی وزارت خارجہ کی طرف سے شائع کردہ ایک بیان کے مطابق، ترکی میں عراق کے سفیر ماجد الجماوی، ''پانی اور توانائی کے مسائل پر پیش رفت اور ترکی کے راستے عراقی تیل کی برآمدات کو دوبارہ شروع کرنے‘‘ کی اُمید رکھتے ہیں۔

عراق میں صدرایردوآن کی متوقع ملاقاتوں کے دوران علاقائی سلامتی کے موضوع پر بات چیت کی جائے گی، ترکی کئی دہائیوں سے  شمالی عراق میں درجنوں فوجی اڈوں سے ترکی کے خلاف بغاوت کرنے والے کردستان ورکرز پارٹی گروپ کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے۔  اس گروپ کو  انقرہ اور اس کے مغربی اتحادی ایک ''دہشت گرد‘‘ گروپ سمجھتے ہیں۔ بغداد اور کرد علاقائی حکومت دونوں پر اپنے قریبی اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ترکی کی فوجی سرگرمیوں کو برداشت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

تاہم عراقی سرزمین پر کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف آپریشنز کے سبب انقرہ اور بغداد کے درمیان تعلقات کشیدہ بھی ہوچکے ہیں۔

’دریائے فرات میں پانی کی قلت میں ترکی کا اہم کردار ہے‘

مارچ میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، عراقی وزیر دفاع ثابت العباسی نے بغداد اور انقرہ کے درمیان ''مشترکہ فوجی کارروائیوں‘‘ کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ''مناسب وقت اور جگہ پر رابطہ انٹیلی جنس مرکز‘‘ قائم کریں گے۔

ف ن/ ک م (اے ایف پی)

ترکی سے رومانیہ ، مہاجرت کا ایک خطرناک راستہ

01:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں