1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کے لیے جرمن اسلحے کی فروخت 14 برس کی بلند ترین سطح پر

17 اکتوبر 2019

رواں برس جرمنی نے ترکی کو گزشتہ 14 برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کیا ہے۔ اس اسلحے کی مالیت 250 ملین یورو سے زائد بنتی ہے۔

Symbolbild Deutsche Rüstungsexporte nach Saudi-Arabien | Kampfpanzer Leopard
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze

رواں برس کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران جرمنی کی طرف سے ترکی کو برآمد کیے گئے اسلحے کی مالیت گزشتہ 14 برس کے دوران سب سے زیادہ رہی۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس برس اب تک ترکی کو 250.4 ملین یورو مالیت کا اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ اعداد وشمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب ترک حکومت کی طرف شام کے شمالی حصے میں کارروائی کے سبب جرمنی نے ترکی کو اسلحے کی فروخت پر نگرانی سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جرمن وزارت اقتصادیات کی طرف سے ملکی سیاسی جماعت ڈی لنکے کی درخواست پر فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اسلحے کی فروخت کی یہ مالیت 2005ء کے بعد سے کسی بھی ایک برس کے دوران کی سب سے زیادہ مالیت ہے۔ اس برس کے چار ماہ ابھی باقی ہیں۔

جرمن حکومت نے ترکی میں تیار کی جانے والی چھ آبدوزوں کے لیے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری 2009ء میں دی تھی۔تصویر: picture alliance

گزشتہ برس ترکی کو، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ بھی ہے، جرمنی کی طرف سے فروخت کیے گئے ہتھیاروں کی کُل مالیت 242.8 ملین یورو رہی تھی۔ یہ مالیت جرمن دفاعی صنعت کا ایک تہائی بنتی ہے۔ اس طرح ترکی جرمن ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا۔

جرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق جرمن ہتھیاروں کی یہ فروخت میری ٹائم سیکٹر یعنی بحری فورس کے لیے تھی۔ جرمن حکومت نے ترکی میں تیار کی جانے والی چھ آبدوزوں کے لیے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری 2009ء میں دی تھی۔ یہ آبدوزیں ایک جرمنی کمپنی کے تعاون سے تیار کی جا رہی ہیں۔

جرمن وزیر دفاع ہائیکو ماس نے اختتام ہفتہ پر کہا تھا کہ ترکی کو ایسے اسلحے کی فروخت کے کوئی نئے پرمٹ جاری نہیں کیے جائیں گے جو وہ شام میں جاری اپنی کارروائی میں استعمال کر سکے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ش ح (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں