ترکی کے پاس خاشقجی کے قتل کے ثبوت ہیں، واشنگٹن پوسٹ
12 اکتوبر 2018
ترک حکومت کے پاس ایسی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز ثبوت کے طور پر موجود ہیں، جن کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کیا گیا ہے۔
اشتہار
اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ترک اور امریکی حکام کے توسط سے لکھا ہے کہ جمال خاشقجی اپنی شادی کے کاغذات کے سلسلے جب دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے پہنچے تو پہلے ان سے پوچھ گچھ کی گئی، ان پر تشدد کیا گیا اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔
یہ ابھی تک غیر واضح ہے کہ آیا امریکی حکام نے ترک انتظامیہ کے پاس اس قتل کے حوالے سے موجود وہ ریکارڈنگ دیکھی اور سنی بھی ہیں۔ انقرہ حکومت کا الزام ہے کہ سعودی عرب خاشقجی کو قتل کرنے اور قونصل خانے سے ان کی لاش ہٹانے میں ملوث ہے۔
بدھ کے روز ترک ذرائع ابلاغ میں نگرانی کے لیے نصب پولیس کے کیمروں سے بنی ایک ویڈیو بھی جار ی کی گئی، جس میں ایک مبینہ سعودی ’’قاتل ٹیم‘‘ کو دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں چند افراد کو ایک ہوٹل سے نکلتے ہوئے اور خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
ویڈیو میں خاشقجی کی منگیتر کو بھی پریشان حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں تاہم قونصل خانے کے اندرونی مناظر شامل نہیں ہیں۔
ترکی نے اس واقعے کے بعد سعودی سفارت خانے کی تلاشی کا مطالبہ کیا تھا۔ ریاض حکومت کی جانب سے اجازت ملنے کے باوجود ابھی تک تلاشی کا یہ عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔
امریکی اور ترک حکام کو شک ہے کہ ریاض حکومت نے صحافی جمال خاشقجی کو اغوا کر کے زندہ حالت میں سعودی عرب واپس لانے کے لیے پندرہ رکنی ٹیم کو روانہ کیا تھا۔
سعودی حکام ان الزامات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ خاشقجی ریاض حکومت کے انتہائی قریب ہوا کرتے تھے تاہم بعد میں وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ناقد بن چکے تھے۔