ترکی یورپی یونین میں؟ یورپی پارلیمان مکالمت کے خاتمے کی حامی
14 مارچ 2019
یورپی پارلیمان نے اکثریتی طور پر منظور کردہ ایک قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ کئی سال سے جاری لیکن گزشتہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار، ترکی کے ساتھ اس کی یورپی یونین میں ممکنہ رکنیت سے متعلق مکالمت کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔
اشتہار
اسٹراسبرگ میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے ایک اجلاس میں بدھ تیرہ مارچ کی شام ارکان نے اس بات کی حمایت کر دی کہ برسلز کے انقرہ کے ساتھ ’ایسوسی ایشن ڈائیلاگ‘ کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ اس قرارداد میں اس کے لیے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں ترکی میں کئی پہلوؤں سے سیاست اور جمہوریت کا سفر آگے کے بجائے پیچھے ہی گیا ہے۔
اس قرارداد کی پارلیمان کے 370 ارکان نے حمایت کی اور 109 نے مخالفت جبکہ 143 اراکین نے اپنی رائے محفوظ رکھی اور ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔ اس مسودے میں ترکی پر تنقید کرتے ہوئے جن دیگر منفی پہلوؤں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا تھا، ان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پائے جانے والے سقم نمایاں تھے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ یورپی کمیشن کے لیے اس قرارداد پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی نہیں لیکن اس پارلیمانی فیصلے کی پھر بھی اپنی ایک خاص سیاسی اہمیت ہے۔ اس مسودہ قرارداد کی منظوری کے ساتھ یورپی ارکان پارلیمان نے انقرہ کو یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے وہاں جس طرح کریک ڈاؤن کیا گیا، میڈیا کی آزادی کو محدود بنایا گیا اور شہری حقوق کی نفی کی گئی، ان سب عوامل پر یورپی یونین میں کئی سطحوں پر پائی جانے والی تشویش سے انکار ممکن نہیں اور اس صورت حال کا سدباب کیا جانا چاہیے۔
ترکی: اتاترک اب بھی روز مرہ کی زندگی میں موجود ہے
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دور اقتدار میں مضبوطی اور بڑے بڑے بل بورڈز کی موجودگی میں بھی اتاترک ترک معاشرے میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کے نقوش پر ایک نظر۔
تصویر: DW/B. Secker
اتاترک پہاڑ
ڈی ڈبلیو کے نمائندے بیڈلی سیکر سن دو ہزار بارہ سے ترکی میں مقیم ہیں۔ اس دوران انہوں نے ترکی بھر کا سفر کیا۔ ازمیر سے ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے اتاترک کے ان بڑے مجسموں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: DW/B. Secker
گھر پر موجودگی
فوجی یونیفارم میں بنایا گیا اتاترک کا یہ مومی مجسمہ استنبول میں ان کے سابق گھر میں رکھا ہوا ہے۔ اس گھر کو اب ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تصویر: DW/B. Secker
ماضی کی یادیں
استنبول کے شمال میں واقع ایک ورکشاپ میں اس مجسمے کی تیاری اپنے آخری مراحل میں ہے۔ ترک عوام اب بھی اپنی ماضی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اس مجسمے کو ایک اسکول کے کھیل کے میدان میں رکھا جائے گا۔
تصویر: DW/B. Secker
دیگر مشہور شخصیات کے ہمراہ
یہ ایسے قالین ہیں، جن پر مشہور شخصیات کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ چی گویرا، بشار الاسد، امام حسین اور حضرت مریم کے ساتھ ساتھ مصطفیٰ کمال اتاترک بھی ہیں۔ یہ مارکیٹ ترکی کے جنوبی شہر انطاکیہ میں واقع ہے۔ یہ علاقہ کثیرالاثقافتی اور کثیر النسلی ہے۔
تصویر: DW/B. Secker
ایک پیغام
ترکی میں ابھی تک مختلف سیاسی جماعتی اتاترک کے سیکولر ورثے کی حفاظت کے لیے سرگرم ہیں۔ مرکزی اپوزیشن جماعت ’سی ایچ پی‘ کی ایک ریلی کے دوران کارکن اتاترک سے اظہار محبت کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/B. Secker
اتاترک کا سایہ
اس علاقے میں ایک مہینہ سورج اس زاویے سے غروب ہوتا ہے کہ ایک پہاڑی کے سائے سے اتاترک کے مجسمے کی شکل بنتی ہے۔ ترکی کی مشرقی سرحد کے قریب واقع دامال شہر کے اس گاؤں کا نام بھی اتاترک گاؤں رکھ دیا گیا۔
تصویر: DW/B. Secker
ہر کونے میں
سن دو ہزار تیرہ میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک شخص نے استنبول بھر کی گلیوں میں اس طرح کے دل اور ان میں اتاترک کی شکلیں بنائی تھیں۔ بین الاقوامی سطح پر ترکی کا سیکولر تشخص تو تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے لیکن گلیوں میں آج بھی اتاترک کی ایسی ڈرائینگز کا راج ہے۔
تصویر: DW/B. Secker
شانہ بشانہ
استنبول میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے سابق فٹ بال کلب میں ان کی اور اتاترک کی یہ تصاویر ایک ساتھ چسپاں ہیں۔ یہ علاقہ متوسط اور مزدور طبقے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایردوآن کے حامی ان کے ماضی کی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/B. Secker
8 تصاویر1 | 8
صحافی قیدیوں کی تعداد کا عالمی ریکارڈ
اسٹراسبرگ کی پارلیمان نے اس قرارداد کی حمایت کیوں کی، اس بات کو ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک سوشلسٹ خاتون رکن پارلیمان کے موقف سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ رائے شماری سے قبل کاٹی پیری نامی اس ڈچ سیاستدان نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین اور یورپی پارلیمان نے انقرہ سے آج تک بنیادی انسانی حقوق کے احترام کے جتنے بھی مطالبات کیے ہیں، ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
کاٹی پیری نے پارلیمانی اراکین کو بتایا، ’’ترکی نے اپنے ہاں آج بھی اتنی بڑی تعداد میں صحافیوں کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے کہ یہ تعداد اپنی جگہ پر ایک عالمی ریکارڈ ہے۔‘‘
ترکی بیس سال سے رکنیت کا امیدوار
ترکی گزشتہ تقریباﹰ بیس سال سے یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوار ملک ہے۔ یونین کی انقرہ کے ساتھ دو عشرے قبل شروع کی گئی بات چیت کا مقصد ترکی میں ایسی تبدیلیوں اور اصلاحات کے لیے مذاکرات کرنا تھا، جن کے نتیجے میں اس ملک میں سیاسی، سماجی اور قانونی معیارات کو بتدریج یورپی معیارات کے ہم پلہ بنایا جا سکے۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
10 تصاویر1 | 10
برسلز اور انقرہ کے مابین یہ مذاکراتی عمل گزشتہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ یہ دوطرفہ مذاکرات آج تک باقاعدہ طور پر اس لیے معطل یا ختم نہیں کیے گئے کہ اس موضوع پر یونین کی رکن ریاستوں میں سے متعدد اختلاف رائے کا شکار ہیں۔
انقرہ نے قرارداد رد کر دی
یورپی پارلیمان کی اس قرارداد کی منظوری کے بعد کل بدھ کی رات ہی ترک حکومت نے اس پارلیمانی فیصلے کو ’قطعی یک طرفہ‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ انقرہ آج تک اپنے اس عشروں پرانے ہدف پر قائم ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کر رہا ہے، جس کی تکمیل پر اسے یورپی یونین کی رکنیت دی جانا چاہیے۔
اس بارے میں ترک وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ یورپی پارلیمان نے یہ قرارداد ایک ایسے وقت پر منظور کی ہے، جب ترکی اور یورپی یونین دونوں ہی آپس کے تعلقات میں جمود کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
م م / ا ا / ڈی پی اے
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔