ترک اساتذہ پاکستان میں ٹھہر سکتے ہیں، پشاور ہائی کورٹ
23 نومبر 2016![Pakistan Protesten gegen die Abschiebung türkischer Lehrern](https://static.dw.com/image/36435687_800.webp)
پاکستانی انگریزی اخبار ڈان پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پشاورہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاک ترک اسکولوں کے طلبا اور ان کے اساتذہ کی جانب سے دائر کی گئی پیٹیشن کی سماعت کی۔ پیٹیشن میں لکھا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ان اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو سیاسی وجوہات کے باعث ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور ان اساتذہ کا کسی ایسے سیاسی معاملے سے تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں پاک ترک اسکول نیٹ ورک کی 28 شاخیں ہیں جن میں گیارہ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کی جانب سے پاک ترک اسکول میں کام کرنے والے ترک اساتذہ اور دیگر ترک سٹاف کو واپس ترکی بھیجنے کے فیصلے کے خلاف اسٹے آرڈر دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس معاملے پر وضاحت پیش کرنے کا نوٹس بھی دے دیا۔ اس کیس کی اگلی سماعت یکم دسمبر کو ہو گی۔
ان اسکولوں پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا،’’گولن تحریک سے منسلک کسی بھی تنظیم کو پاکستان میں جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے مابین جاری تعاون کے نتیجے میں ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ترک صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر فیصلہ لینے پر پاکستانی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔
پاکستان میں کئی افراد حکومت کی جانب سے ترک اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کو پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ نواز شریف حکومت نے یہ قدم ’سیاسی وجوہات‘ کی بنا پر اٹھایا ہے۔