ترک صدر رجب طیب ایردوآن بدھ کے روز ایران پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ اپنے ہم منصب حسن روحانی کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
اشتہار
شام کے تنازعہ میں دونوں ممالک مخالف فریقوں کی حمایت میں مصروف رہے ہیں، تاہم عراقی کرد علاقوں میں حالیہ ریفرنڈم کی مخالفت دونوں ممالک نے کی تھی۔ دونوں ممالک کو خوف لاحق ہے کہ اگر عراق میں کرد اپنی علیحدہ ریاست بنانے میں قائم رہے، تو ان کے زیرقبضہ کرد علاقوں میں بھی علیحدگی پسندی کو ہوا ملے گی۔
ایردوآن کے تہران پہنچنے سے قبل اتوار کو ترک مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل ہولوسی بھی ایران پہنچ چکے ہیں۔
دونوں ممالک نے عراق کے کرد خودمختار خطے کے قریب اپنے علاقوں میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔ ان مشقوں میں بغداد حکومت نے اپنی فورسز کو بھی شریک کیا تھا، جس کا مقصد کرد رہنماؤں پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ علیحدگی پسندی کا راستہ ترک کر دیں۔
یہ بات اہم ہے کہ ستمبر کی 25 تاریخ کو کرد خطے میں منعقدہ متنازعہ ریفرنڈم میں نوے فیصد سے زائد عوام نے آزادی کے حق میں رائے دی تھی۔ اس ریفرنڈم کے بعد جمعے کو بغداد حکومت نے کرد ہوائی اڈوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ایرانی وزیردفاع جنرل عامر حاتمی نے منگل کے روز ترک چیف آف اسٹاف سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ایران، ترکی اور عراق کے مابین قریبی تعلقات خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
ترک دارالحکومت انقرہ کی کچی بستیاں اور آئینی ریفرنڈم
انقرہ کی پسماندہ بستیوں کے باسیوں کو صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں زیادہ سہولتیں اور سماجی مراعات ملی ہیں لیکن یہ ترک شہری پھر بھی عنقریب منعقدہ ریفرنڈم میں صدر کے اختنیارات میں اضافے کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
دھواں دھواں بستیاں
سردیوں میں ترکی کے کم آمدنی والے علاقوں کے اوپر فضا میں دھوئیں کے بادل معلق رہتے ہیں۔ اس کی وجہ اس علاقے میں کوئلے سے چلنے والے تندور اور ہیٹر ہیں۔ جب سے رجب طیب ایردوآن برسرِاقتدار آئے ہیں، ترکی کے ان غریب ترین باشندوں کو خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ مفت مل رہا ہے۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ووٹ بھی ایردوآن ہی کو ملیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ان ووٹروں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا
ترکی میں مجوزہ ریفرنڈم میں سوال یہ ہے کہ آیا اس ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج کر دیا جائے، جس کی کمان ایردوآن اور اُن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے ہاتھوں میں ہو۔ اگرچہ ایردوآن نے سماجی خدمات کے پروگراموں کے ذریعے غریبوں کی زندگیاں بہتر بنائی ہیں، لیکن ان بستیوں کے ووٹر ابھی بھی اپنے ووٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
غریبوں کی جماعت
’’جب میرا شوہر بے روزگار تھا، تب میرا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میں کوئلہ کہاں سے لاؤں۔ پھر اے کے پی نے ہمیں مفت کوئلہ دے دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہ جماعت غریبوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ باتیں تین بچوں کی ماں ایمل یلدرم نے ڈی ڈبلیو کو بتائیں: ’’پہلے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔اب ہسپتال غریبوں کو اپنے ہاں قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
کُرد ووٹ
ایمل یلدرم کا تعلق کُرد آبادی سے ہے اور اسی لیے وہ ترک ریاست اور کرد عسکریت پسندوں کے درمیان تنازعات پر بھی فکرمند ہیں: ’’اگر ایردوآن کو ’ہاں‘ میں ووٹ مل جاتا ہےتو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وہ کہتا ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف صلاح الدین دیمرتاس (جیل میں قید اپوزیشن رہنما) سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایردوآن کُردوں کو خون میں نہلا دیں گے ... ایسے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
شک و شبہ حاوی ہے
بستی کے ایک راستے کے کنارے انتخابی مہم کے پوسٹر میں لپٹا ایک صوفہ۔ یہاں ایردوآن کے بارے میں جذبات ملے جلے ہیں۔ قریب ہی پچیس سالہ علی اپنی فیملی کار میں کلیجی کے سینڈوچ بیچ رہا ہے۔ اُس نے بتایا: ’’پندرہ مارچ کو اُنہوں نے یہاں کے باسیوں کو کوئلے سے بھرے تھیلے دیے۔ آخر وہ بہار کے موسم میں ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ سردیاں تو گئیں۔ یہ یقیناً ووٹوں کے لیے ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
’سسٹم میں خرابی ہے یا؟‘
علی نے بتایا کہ اسے حکومتی صفوں میں موجود کرپشن پر زیادہ تشویش ہے۔ علی نے کہا: ’’میں نہیں جانتا کہ خرابی نظام میں ہے یا اسے چلانے والے لوگوں میں۔ اسی طرح کے سوالات میرے ذہین میں اسلام کے حوالے سے بھی ہیں۔ کیا مسئلہ مذہب کا ہے یا اُن لوگوں کا، جو اس کا نام لے کر خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ میری باتوں سے لگتا ہو گا کہ میں ریفرنڈم میں مخالفت میں ووٹ دوں گا لیکن درحقیقت میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
اپنے شوہر کے نقشِ قدم پر
تین سالہ عائشہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔ اُس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا یا تصویر اُتروانا نہیں چاہتی لیکن یہ کہ ریفرنڈم میں اُس کا جواب ’ہاں‘ میں ہو گا کیونکہ اُس کا شوہر بھی ایسا ہی کرے گا۔ یلدرم نے کہا کہ اُس کا شوہر، جو ایک باورچی کے طور پر کام کرتا ہے، اس لیے ’ہاں‘ میں ووٹ دے گا کیونکہ ’اُس کے خیال میں ایردوآن جو بھی کہتا ہے، درست کہتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ریفرنڈم؟ کس بارے میں؟
فریدہ تورہان (دائیں) اور اُس کا شوہر مصطفیٰ (بائیں) اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ موجود ہیں۔ فریدہ کے مطابق اُسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ریفرنڈم ہے کس بارے میں: ’’مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میں روز خبریں دیکھتی ہوں اور مجھے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ ریفرنڈم ہے کیا۔ مجھے ابھی بھی نہیں پتہ کہ یہ ترامیم ہیں کس بارے میں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سلامتی سب سے مقدم
مصطفیٰ تورہان بھی (تصویر میں نہیں)، جو سبزی منڈی میں رات کی شفٹ میں کام کرتا ہے، کہتا ہے کہ سلامتی کا معاملہ اولین اہمیت رکھتا ہے۔ اُس نے بتایا کہ اے کے پی نے حالیہ برسوں کے دوران کم آمدنی والے علاقوں میں ایمبولینس سروسز کا دائرہ پھیلایا ہے لیکن تشدد پھر بھی بڑھ رہا ہے: ’’رات کو اے کے سینتالیس رائفلوں سے مسلح نقاب پوش لوگوں کولوٹ لیتے ہیں، کبھی کبھی تو دس دس سال کے بچوں کے پاس بھی گنیں ہوتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار
مصطفیٰ کے مطابق اُن کے آس پاس اسکولوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہو رہی: ’’ہم مفت کوئلہ اس لیے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ہم حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک طریقہ ہے، وہ پیسہ واپس لینے کا لیکن ہم اس بات کو ترجیح دیں گے کہ حکومت اسکولوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرے تاکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے امکانات بہتر ہو سکیں۔‘‘ اُس کا بڑا بیٹا آج کل کام کی تلاش میں ہے اور ابھی ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
ایران نے بھی عراقی کردستان کے ساتھ ایندھن کی تمام تر تجارت موقوف کر دی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کردستان کے ساتھ لگنے والی ایرانی سرحد پر عراقی فورسز کی تعیناتی کی بھی اجازت دے دی ہے۔
ترکی نے بھی دھمکی دی ہے کہ وہ عراقی کردستان سے تیل کی تمام تر برآمدات پر پابندی عائد کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ترک سرحد بھی بند کی جا سکتی ہے۔
ایردوآن نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ عراقی کردستان کو اس ’ناقابل قبول ریفرنڈم‘ کی ’قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں سن 1984 سے کردستان ورکرز پارٹی متحرک ہے، جن کے محفوظ ٹھکانے شمالی عراق میں ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی نے ایک علیحدہ ریاست کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی تھی۔ اس تنظیم کو ترکی کے علاوہ مغربی دنیا نے بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔
ترکی میں آئینی ریفرنڈم
01:06
ایران کے کرد علاقوں میں بھی دو گروپ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران اور پارٹی آف فری لائف نے کردستان متحرک ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ترکی میں ایردوآن کے حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی شدید مذمت تہران حکومت کی جانب سے بھی کی گئی تھی اور تب سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں خاصی بہتری آئی ہے۔