ترک حکومت مساجد کے لبرل آئمہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے
16 اگست 2019
ترکی کے مذہبی امور کے محکمے نے اپنے آئمہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس محکمے کے ملازم مذہبی علما کا بنیادی فریضہ مساجد میں امامت کرنا ہے۔
اشتہار
ترکی میں مذہبی امور کا محکمہ دیانت کہلاتا ہے۔ اس کے ماتحت ملک کی نوے ہزار مساجد کے لیے مقرر آئمہ کو مختلف اوقات میں دینے والے خطبات کے لیے رہنما اصول فراہم کرنا ہیں۔ زیادہ تر رہنما اصولوں کا تعلق اخلاقيات، نماز، عقیدہ، عقائد کی خلاف ورزی اور دینی تعلیم سے متعلق ہوتا ہے۔
ترکی میں یہی محکمہ بچوں کے لیے مذہبی اسباق اور نصاب کو مرتب کرتا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سترہ ہزار سے زائد ہے اور یہ سبھی ملک کی ہزاروں مساجد کے آئمہ نہیں ہیں بلکہ کئی دفتری امور بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
دیانت ادارے کے مرتب کردہ رہنما اصولوں کی پاسداری نہ کرنے پر تادیبی کارروائی فوراً شروع کر دی جاتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کو محکمہ دیانت نے یہ نہیں بتایا کہ اب تک کتنے اماموں کو تادیبی کارروائیوں کے بعد ملازمت سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ بعض آئمہ نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر صورت حال کی شدت کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو مطلع کیا۔
ایسے ہی ایک امام عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے ایک مفتی کے ایسے فتوے کی مخالفت کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی خاتون کسی مرد کے بغیر سپر مارکیٹ میں خریداری کے لیے نہیں جا سکتی۔ عبداللہ اس صورت حال کو مفتی کے فتوے سے الٹ دیکھتے ہیں۔
عبداللہ نے بتایا کہ فتوے سے اختلاف کے بعد انتظامی کارروائی کے طور پر اُس کے فیس بک پیج کی چھان بین کی گئی۔ حکام کو ان کا ایک سابقہ بیان ملا جس میں انہوں نے خواتین کو نیل پالش کے ساتھ وضو کرنے اور پھر نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔
عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیس بک بیان کو پڑھنے کے بعد متعلقہ حکام نے اپنی تفتیش میں تیزی پیدا کر دی اور اُن کے خلاف باضابطہ انکوائری شروع کر دی گئی۔ انکوائری کے بعد اُن کی چھ سالہ ملازمت کسی پیشگی نوٹس کے ہی ختم کر دی گئی۔
عبداللہ کے مطابق انہوںنے اپنے فیس بک پیج پر آزادئ رائے کے تحت کچھ تحریر کیا صرف یہ سوچتے ہوئے کہ ترکی میں آزادئ رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ ایک اور امام احمد محسن توزیر کو حکام نے نو ماہ قبل ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔ توزیر کا جرم بھی رہنما اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔
سابقہ امام توریز نے بحیرہ روم کے ساحلی شہر کاس میں ایک میوزیکل بینڈ قائم کیا تھا اور اس باعث انہیں 'روک امام‘ کہا جاتا ہے۔ توریز کا کہنا ہے کہ میزکیل بینڈ کی تشکیل کے بعد محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی اور اُن کے بینڈ کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
احمد محسن توریز کے مطابق تفتیش کار ان کی پرفارمنس کی تقریبات میں خاص طور پر شریک ہوتے اور ایسے اقدامات سے دیانت محکمے نے اُن کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا۔ اس طرح موسیقی سے رغبت ملازمت سے برخاست کرنے کی وجہ بن گئی۔ جنوب مشرقی شہر سِرناک میں چھیالیس برس کے امام کی ملازمت پچیس برس کے بعد ختم کر دی گئی۔ اس کی وجہ اس امام کا ٹریڈ یونین کا رکن بننا تھا۔
ترک دستور کی ایک شق پچیس ہے اور اُس میں بیان کیا گیا ہے کہ مذہبی آئمہ کا فریضہ ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کریں اور مناسبت یہ ہے کہ وہ تعریف اور تنقید سے اجتناب کریں۔ برخاست شدہ آئمہ کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس تمام امام مساجد میں انتخابات کے انعقاد پر سیاسی بیان بازی کرنے پر مجبور ہیں۔
مختلف برخاست ہونے والے اماموں کا مشترکہ طور پر کہنا ہے کہ ایردوآن حکومت مذہبی امور کے محکمے دیانت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترک اپوزیشن بھی کہتی ہے کہ مذہبی امور کا محکمہ سیاسی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ اس محکمے میں اقربا پروری اور نوازنے کا سلسلہ بھی زوروں پر بتایا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ ترکی کے کئی شہروں کی کثیر آبادی اس وقت بھی غیر دینی رویوں کو پسند کرتی ہے اور اِس پر عمل پیرا ہونے میں مسرت محسوس کرتی ہے۔
کرکاس برچو (عابد حسین)
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔