یونانی حکومت ترک سرحد پر دیوار کی تعمیر کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کرنے والی ہے۔ اس دیوار کا مقصد زمینی راستے سے غیر قانونی مہاجرین کی آمد کو روکنا ہے۔
اشتہار
یونانی حکومت کے ترجمان نے اُس حکومتی منصوبے کی تصدیق کی ہے، جس کے تحت ترک سرحد پر ایک بلند دیوار کو تعمیر کیا جانا ہے۔ ترجمان کے مطابق دیوار حقیقت میں پہلے سے دس کلومیٹر (سولہ میل) لمبی خاردار باڑ کا تسلسل ہے۔ تعمیر کی جانے والی دیوار کی لمبائی چھبیس کلو میٹر ہے اور اس پر تریسٹھ ملین یورو (چوہتر ملین امریکی ڈالر) کی لاگت آئے گی۔
ایتھنز حکومت کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ سرحدی دیوار اگلے برس اپریل کے اختتام تک تعمیر کر لی جائے گی۔ دیوار بنانے کا فیصلہ ترک حکومت کا وہ اعلان خیال کیا گیا ہے، جس میں انقرہ نے واضح کیا تھا کہ وہ یورپ پہنچنے والے مزید مہاجرین کو روکنے کا پابند نہیں ہے۔ یورپی یونین اور ترکی میں مہاجرین کے معاملے پر جنم لینے والے اختلافات کے بعد ہزاروں مہاجرین نے ترک سرحد عبور کر کے یونان میں داخل ہونے کی کوششیں بھی کی تھیں۔
ایتھنز حکومت کے ترک سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کے کا پراجیکٹ چار تعمیراتی کمپنیوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں موجودہ خاردار باڑ کے حصے کو بھی اپ گریڈ کرنے کی پابند ہوں گی۔ یہ دیوار سرحدی دریا ایوروس کے ساتھ ساتھ تعمیر کی جائے گی۔
چھبیس کلو میٹر بلند دیوار کی بلندی پانچ میٹر (پندرہ فٹ) ہو گی۔ اس میں برقی رو بھی موجود ہو گی۔ اس مقصد کے لیے اسٹیل کے خصوصی چوکور بلاکس استعمال کیے جائیں گے۔ دیوار کی بنیاد کنکریٹ سے تیار ہو گی۔ یونان اور ترکی کی سرحد خاصی طویل ہے اور اس کی کُل لمبائی ایک سو بانوے کلو میٹر ہے۔
یونانی پولیس کے اہلکاروں نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ نگرانی کے عمل کے لیے طاقتور کیمروں کو بھی نصب کیا جائے گا کیونکہ طویل سرحد پر یہی اہم نگرانی کا ذریعہ ہو گا۔ پولیس افسران کی تنظیم کے صدر ایلیاس آکیدس کا کہنا ہے کہ کیمروں کو نصب کرنے کا مطالبہ پانچ سال پرانا ہے اور اس فیصلے سے کنٹرول زیادہ مؤثر ہو سکے گا۔
رواں برس کے دوران ترکی سے یونانی سرحد عبور کر کے یورپ داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ اس کی وجوہات میں ایک کورونا وائرس کی پھیلی ہوئی وبا اور دوسرے دونوں ملکوں کے درمیان سمندر میں سے تیل کی تلاش پر پیدا تنازعہ ہے۔ ان وجوہات کے تناظر میں سرحدی نگرانی اور کنٹرول کو یونانی حکومت نے بہت سخت کر رکھا ہے۔
یہ بھی اہم ہے ترکی اور یونان میں مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے کے علاوہ بحیرہ روم میں تیل کی تلاش پر بھی شدید اختلاف پیدا ہے اور ان وجوہات کی بنیاد پر ان ہمسایہ ممالک میں غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ سمندر میں تیل کی تلاش کا معاملہ سنگین قرار دیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی افواج کو الرٹ کیا جا چکا ہے اور تنازعے میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔
ع ح، ب ج (اے پی)
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔