ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عالمی مالیاتی منڈیوں، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں اور اپنے ہی ملک کے مرکزی بینک پر شدید تنقید کر کے سب کو حیران کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ غیر متوقع بیان بیازی محض ان کا ایک انتخابی حربہ ہے؟
اشتہار
صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ تنقید کیوں کی؟ ماہرین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا وہ محض آئندہ الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہ رہے ہیں یا ترک زرعی شعبے کی حالت واقعی ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ ترکی میں اگلے الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل صدر ایردوآن اس وقت شدید دباؤ میں ہیں۔ اس کی وجہ محض ترکی کی اقتصادی حالت ہی نہیں ہے۔
رجب طیب ایردوآن اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ گزشتہ برس ترک معیشت میں ترقی کی شرح متاثر کن حد تک 7.4 فیصد رہی۔ لیکن ساتھ ہی کئی ماہرین اقتصادیات اس شرح کو شبے کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ آیا یہی شرح واقعی ترک معیشت کی حقیقی حالت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔
ترکی میں اس وقت بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ جرمنی میں کونسٹانس کی یونیورسٹی برائے بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کے پروفیسر ایردال یالسن کے مطابق اس اقتصادی ترقی کے ایک بڑے حصے کا تعلق ملک میں داخلی طلب اور رسد سے ہے۔ یعنی اس میں وہ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے بھی شامل ہیں، جو ریاست یا بڑے بڑے کاروباری ادارے چلا رہے ہیں لیکن ان سب منصوبوں کے لیے مالی وسائل قرضوں کے طور پر حاصل کیے گئے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترک کرنسی لیرا کی قدر میں مسلسل کمی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے لیے اس لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی مجموعی سالانہ درآمدات اس کی کل برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں افراط زر کی شرح اس وقت 11 فیصد ہے، یعنی افراط زر کی پانچ فیصد کی اس زیادہ سے زیادہ شرح کے دوگنا سے بھی کہیں زیادہ، جس کی ترک مرکزی بینک مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔
ترک مرکزی بینک کو اس افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود بڑھانا پڑی تاکہ ملکی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کو روکا جا سکے۔ اس بارے میں پروفیسر ایردال یالسن کہتے ہیں، ’’ ترکی کو غیر ملکی سرمائے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عام مصنوعات کے استعمال کی بنیاد پر اقتصادی ترقی کی موجودہ شرح کو قائم رکھا جا سکے۔ لیکن ترکی میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی اداروں میں اس حوالے سے اعتماد کا فقدان ہے اور یہی بات ٹِک ٹِک کرتے کسی ٹائم بم سے کم نہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‘‘
’تمام برائیوں کی جڑ‘
ان حالات میں ترک مرکزی بینک جن شعبوں میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہا ہے، ان میں سے سود کی مرکزی شرح میں اضافہ کوئی واحد پہلو نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ صدر ایردوآن ملکی مالیاتی پالیسی کے غیر جانبدار نگران اور کرنسی کے آزاد محافط کے طور پر سینٹرل بینک پر اس لیے اپنا دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں کہ وہ مرکزی شرح سود کم کرے۔
رجب طیب ایردوآن نے حال ہی میں اپنی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سود کی اونچی شرح کو ’’تمام برائیوں کی جڑ‘‘ قرار دیا تھا۔ پھر انہوں نے چند روز قبل بلومبرگ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ آئندہ صدارتی الیکشن جیت گئے، تو ملکی مرکزی بینک کو زیادہ بہتر طور پر کنٹرول کریں گے۔
ترک دارالحکومت انقرہ کی کچی بستیاں اور آئینی ریفرنڈم
انقرہ کی پسماندہ بستیوں کے باسیوں کو صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں زیادہ سہولتیں اور سماجی مراعات ملی ہیں لیکن یہ ترک شہری پھر بھی عنقریب منعقدہ ریفرنڈم میں صدر کے اختنیارات میں اضافے کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
دھواں دھواں بستیاں
سردیوں میں ترکی کے کم آمدنی والے علاقوں کے اوپر فضا میں دھوئیں کے بادل معلق رہتے ہیں۔ اس کی وجہ اس علاقے میں کوئلے سے چلنے والے تندور اور ہیٹر ہیں۔ جب سے رجب طیب ایردوآن برسرِاقتدار آئے ہیں، ترکی کے ان غریب ترین باشندوں کو خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ مفت مل رہا ہے۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ووٹ بھی ایردوآن ہی کو ملیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ان ووٹروں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا
ترکی میں مجوزہ ریفرنڈم میں سوال یہ ہے کہ آیا اس ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج کر دیا جائے، جس کی کمان ایردوآن اور اُن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے ہاتھوں میں ہو۔ اگرچہ ایردوآن نے سماجی خدمات کے پروگراموں کے ذریعے غریبوں کی زندگیاں بہتر بنائی ہیں، لیکن ان بستیوں کے ووٹر ابھی بھی اپنے ووٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
غریبوں کی جماعت
’’جب میرا شوہر بے روزگار تھا، تب میرا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میں کوئلہ کہاں سے لاؤں۔ پھر اے کے پی نے ہمیں مفت کوئلہ دے دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہ جماعت غریبوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ باتیں تین بچوں کی ماں ایمل یلدرم نے ڈی ڈبلیو کو بتائیں: ’’پہلے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔اب ہسپتال غریبوں کو اپنے ہاں قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
کُرد ووٹ
ایمل یلدرم کا تعلق کُرد آبادی سے ہے اور اسی لیے وہ ترک ریاست اور کرد عسکریت پسندوں کے درمیان تنازعات پر بھی فکرمند ہیں: ’’اگر ایردوآن کو ’ہاں‘ میں ووٹ مل جاتا ہےتو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وہ کہتا ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف صلاح الدین دیمرتاس (جیل میں قید اپوزیشن رہنما) سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایردوآن کُردوں کو خون میں نہلا دیں گے ... ایسے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
شک و شبہ حاوی ہے
بستی کے ایک راستے کے کنارے انتخابی مہم کے پوسٹر میں لپٹا ایک صوفہ۔ یہاں ایردوآن کے بارے میں جذبات ملے جلے ہیں۔ قریب ہی پچیس سالہ علی اپنی فیملی کار میں کلیجی کے سینڈوچ بیچ رہا ہے۔ اُس نے بتایا: ’’پندرہ مارچ کو اُنہوں نے یہاں کے باسیوں کو کوئلے سے بھرے تھیلے دیے۔ آخر وہ بہار کے موسم میں ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ سردیاں تو گئیں۔ یہ یقیناً ووٹوں کے لیے ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
’سسٹم میں خرابی ہے یا؟‘
علی نے بتایا کہ اسے حکومتی صفوں میں موجود کرپشن پر زیادہ تشویش ہے۔ علی نے کہا: ’’میں نہیں جانتا کہ خرابی نظام میں ہے یا اسے چلانے والے لوگوں میں۔ اسی طرح کے سوالات میرے ذہین میں اسلام کے حوالے سے بھی ہیں۔ کیا مسئلہ مذہب کا ہے یا اُن لوگوں کا، جو اس کا نام لے کر خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ میری باتوں سے لگتا ہو گا کہ میں ریفرنڈم میں مخالفت میں ووٹ دوں گا لیکن درحقیقت میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
اپنے شوہر کے نقشِ قدم پر
تین سالہ عائشہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔ اُس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا یا تصویر اُتروانا نہیں چاہتی لیکن یہ کہ ریفرنڈم میں اُس کا جواب ’ہاں‘ میں ہو گا کیونکہ اُس کا شوہر بھی ایسا ہی کرے گا۔ یلدرم نے کہا کہ اُس کا شوہر، جو ایک باورچی کے طور پر کام کرتا ہے، اس لیے ’ہاں‘ میں ووٹ دے گا کیونکہ ’اُس کے خیال میں ایردوآن جو بھی کہتا ہے، درست کہتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ریفرنڈم؟ کس بارے میں؟
فریدہ تورہان (دائیں) اور اُس کا شوہر مصطفیٰ (بائیں) اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ موجود ہیں۔ فریدہ کے مطابق اُسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ریفرنڈم ہے کس بارے میں: ’’مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میں روز خبریں دیکھتی ہوں اور مجھے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ ریفرنڈم ہے کیا۔ مجھے ابھی بھی نہیں پتہ کہ یہ ترامیم ہیں کس بارے میں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سلامتی سب سے مقدم
مصطفیٰ تورہان بھی (تصویر میں نہیں)، جو سبزی منڈی میں رات کی شفٹ میں کام کرتا ہے، کہتا ہے کہ سلامتی کا معاملہ اولین اہمیت رکھتا ہے۔ اُس نے بتایا کہ اے کے پی نے حالیہ برسوں کے دوران کم آمدنی والے علاقوں میں ایمبولینس سروسز کا دائرہ پھیلایا ہے لیکن تشدد پھر بھی بڑھ رہا ہے: ’’رات کو اے کے سینتالیس رائفلوں سے مسلح نقاب پوش لوگوں کولوٹ لیتے ہیں، کبھی کبھی تو دس دس سال کے بچوں کے پاس بھی گنیں ہوتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار
مصطفیٰ کے مطابق اُن کے آس پاس اسکولوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہو رہی: ’’ہم مفت کوئلہ اس لیے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ہم حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک طریقہ ہے، وہ پیسہ واپس لینے کا لیکن ہم اس بات کو ترجیح دیں گے کہ حکومت اسکولوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرے تاکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے امکانات بہتر ہو سکیں۔‘‘ اُس کا بڑا بیٹا آج کل کام کی تلاش میں ہے اور ابھی ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
اس طرح صدر ایردوآن ترک ووٹروں کے ایک حصے کی ہمدردیاں تو حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ بہت سے ترک کاروباری ادارے اور عام گھرانے کافی مقروض ہیں۔ لیکن اس طرح ایردوآن کی طرف سے بیرونی دنیا کو دیا جانے والا اشارہ بہت تباہ کن ہے اور اسی لیے ترک لیرا کی بین الاقوامی قدر و قیمت مزید کم ہو رہی ہے۔
صدر ایردوآن کے اس موقف کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس طرح نہ صرف قرضوں کی واپسی کے حوالے سے ترکی کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی بلکہ اس طرح ترکی سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کا عمل بھی شروع ہو سکتا ہے، جو مزید تباہ کن ثابت ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے بقول ترک صدر ایردوآن کی بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں، ریٹنگ ایجنسیوں اور ترک مرکزی بینک پر یہ تنقید انقرہ اور ترک معیشت کے لیے ایک ٹائم بم ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ تو سکتا ہے لیکن جسے پھٹنے سے ہر ممکن کوششیں کر کے روکنا بھی انتہائی لازمی ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترکی میں آئندہ صدارتی الیکشن کے نتائج جو بھی رہیں، ترکی کو اپنے ہاں مالیاتی اعتماد سازی کے لیے کافی کچھ کرنا ہو گا، اور غیر جانبدار مرکزی بینک پر دباؤ ڈالنے کے بجائے یہ کوشش بھی کرنا ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار ترکی میں سرمایہ کاری کریں۔
اس کے لیے انقرہ حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ اپنے وہ تعلقات بھی دوبارہ معمول پر لاتے ہوئے انہیں مزید مثبت شکل دینا ہو گی، جو کافی عرصے سے بہت کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یورپی کمیشن کی ترکی سے متعلق وہ سالانہ رپورٹ بھی ہے، جو اپریل میں جاری کی گئی تھی اور جس میں برسلز کی طرف سے کہا گیا تھا، ’’ترکی نے کئی ایسے بڑے بڑے اقدامات کیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ یورپی یونین سے مزید دور چلا گیا ہے۔‘‘
’ترکی میں مارشل لاء‘ عوام راستے میں آ گئے
ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
عوام سڑکوں پر
ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Y. Okur
لوگ ٹینکوں پر چڑھ دوڑے
خبر رساں اداروں کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق انقرہ میں فوجی بغاوت کے مخالفین عوام نے ٹینکوں پر حملہ کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عوام میں غصہ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی علی الصبح ہی انقرہ میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کچھ لوگ خوش بھی
خبر رساں اداروں کے مطابق جہاں لوگ اس فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
ایردوآن کے حامی مظاہرین
ترک صدر ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کرفیو کا نافذ
ترکی کے سرکاری براڈ کاسٹر کی طرف سے نشر کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوج نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے جمعے کی رات ہی اس نشریاتی ادارے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Saltanat
ٹینک گشت کرتے ہوئے
انقرہ کی سڑکوں پر رات بھر ٹینک گشت کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
جنگی جہاز اڑتے ہوئے
استنبول میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات جیٹ طیارے نیچی پرواز کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/AA
ہیلی کاپٹرز سے نگرانی
بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کی خاطر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ رات کے وقت ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
عالمی برداری کی مذمت
ترکی کی موجودہ صورتحال پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کہنا کہ ترکی کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
ترک صدر محفوظ ہیں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’فوج کے اندر ایک چھوٹے سے ٹولے‘ کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت ناکام بنا دی جائے گی۔