ترک صدر ایردوآن کا ’خاشقجی شو‘، فائدہ کیا ہوا: تبصرہ
24 اکتوبر 2018
جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں، ترک صدر ایردوآن نے یہ بات ٹی وی کیمروں کے سامنے کہی تھی۔ اپنا یہ بیان صدر ایردوآن نے ملکی عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے کچھ بالا تر ہو کر دیا تھا۔
اشتہار
کئی ماہرین کا سوال یہ ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں اس ماہ کے اوائل میں قتل سے متعلق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جس طرح اور جتنے بیانات دیے، ان سے ایردوآن اور ترکی کو کیا فائدہ پہنچا۔ کئی تبصرہ نگار اسے صدر ایردوآن کے ’خاشقجی شو‘ کا نام بھی دے رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ترک زبان کے شعبے کی صحافی حولیہ شَینک کا لکھا تبصرہ:
ترکی کو جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام تر دستیاب وسائل استعمال کرتے ہوئے فوری تفتیش کرنا چاہیے تھی اور عالمی برادری کو اس کی تفصیلات سے بہت پہلے ہی آگاہ کر دینا چاہیے تھا تاکہ اس کیس کی بلاتاخیر وضاحت ہو سکتی۔ اس طرح ترک سربراہ مملکت دو مقاصد حاصل کر سکتے تھے۔ ایک تو عالمی برادری کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا جو گزشتہ برسوں میں بہت کمزور پڑ گیا تھا اور دوسرے ترکی کی اس عدلیہ کا وقار بھی بحال ہو جاتا، جس پر پچھلے کچھ برسوں سے ملکی سیاسی رہنماؤں کے زیر سایہ رہنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
لیکن ترکی نے خود کو حاصل ہونے والا یہ نادر موقع ضائع کر دیا اور جب بھی جمال خاشقجی کے بارے میں کسی نئی اطلاع کے لیے دنیا ترکی کی طرف دیکھتی، تو وہاں سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز ایردوآن ہی کچھ نہ کچھ کہتے سنائی دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کے ناقد صحافی خاشقجی کے ترکی میں قتل سے متعلق رجب طیب ایردوآن کا رویہ سیاسی اور عدالتی دونوں حوالوں سے نامناسب تھا۔
صدر کا جج کا سا لہجہ
ترک پولیس اور عدلیہ نے جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد اپنی ابتدائی تفتیش میں ہی کافی کامیابیاں حاصل کر لی تھیں۔ لیکن رجب طیب ایردوآن نے کیا کیا؟ انہوں نے اپنے اولین بیانات کے بعد اس کیس کی بہت سی اہم تفصیلات انقرہ کی قومی پارلیمان میں اپنی جماعت اے کے پی کے پارلیمانی حزب کے ارکان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایسے بیان کیں، جیسے منتخب عوامی نمائندوں کا یہ اجلاس کسی عدالت کا کمرہ تھا اور ایردوآن ملکی صدر نہیں بلکہ جیسے کسی عدالت کے سربراہ تھے یا کوئی وکیل استغاثہ جو ملزمان پر فرد جرم عائد کر رہا ہو۔
اے کے پی کے پارلیمانی دھڑے کے اس اجلاس میں صدر ایردوآن نے ہی بتایا تھا کہ وہ ’ٹیمیں‘ جنہوں نے خاشقجی کو قتل کیا تھا، وہ کس طرح استنبول پہنچی تھیں اور کس طرح ارتکاب جرم کے بعد اس شہر سے رخصت بھی ہو گئی تھیں۔ صدر ایردوآن نے یہ بھی کہا تھا، ’’اب سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ کیس کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ اس کی مکمل وضاحت کرے۔‘‘
بات یہ ہے کہ صدر ایردوآن نے یہ باتیں جس لہجے اور جن الفاظ میں کہیں، وہ لہجہ یا الفاظ تو عام طور پر ترک نظام قانون کے تحت ریاستی دفتر استغاثہ کے حکام بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نہیں اپناتے۔ اس لیے کہ یہ کام تو کسی جج کا ہوتا ہے، جو وہ ہر کسی کے لیے قابل قبول کوئی عدالتی فیصلہ سناتے ہوئے کرتا ہے۔
پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی جمہوری ریاست میں یہ کام ملکی صدر کا تو نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے معاملے میں کوئی سیاسی بیان جاری کرے، جس کے بارے میں ماہرین استغاثہ اپنے طور پر تفتیش ابھی جاری رکھے ہوئے ہوں۔
یوں جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں اپنے بار بار کے سیاسی بیانات کے ساتھ ترک صدر ایردوآن ایک بار پھر ریاستی آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کے آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
سعودی شاہی خاندان کے ساتھ تصادم سے پرہیز
جمال خاشقجی کا قتل ایک طرح سے عرب دنیا میں پائی جانے والی طاقت کی کشمکش کا بھی غماز ہے۔ سنی مسلم عرب دنیا اور وہابی نظریات کی حامل عرب ریاستوں کے مابین اسی کھچاؤ کے پس منظر میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جمال خاشقجی نظریاتی طور پر اخوان المسلمون کے کچھ قریب تھے۔ یہ تنظیم کئی عرب ممالک میں موجود لیکن ممنوع قرار دی گئی ایک ایسی مسلم تحریک ہے، جسے سعودی شاہی خاندان اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
دوسری طرف ترکی میں صدر ایردوآن بھی اخوان المسلمون کے ساتھ کچھ نظریاتی قربت اور اخلاقی ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ انقرہ حکومت اور ریاض میں سعودی شاہی خاندان کے مابین کوئی براہ راست سیاسی تصادم ہو جائے۔ شاید اسی لیے خاشقجی کی گمشدگی اور پھر ان کے قتل کی تفتیش پہلے دن سے ہی سست رفتار اور بہت پیچیدہ رہی۔
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
جمال خاشقجی کے قتل کی چھان بین میں اب تک اسے ایک عام قتل کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے، حالانکہ سعودی حکمران یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ قتل ایک ’بہت بڑی اور سنگین غطی‘ تھی۔ صدر ایردوآن سعودی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ اس مقدمے کی سماعت ترکی میں ہونا چاہیے اور ریاض حکومت اب تک سعودی عرب میں اس سلسلے میں گرفتار کیے گئے 18 ملزمان کو ترکی کے حوالے کر دے۔
لیکن ساتھ ہی یہ اشارے بھی واضح ہیں کہ اس قتل کے مرتکب افراد کے طور پر اس میں براہ راست ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کی بات تو کی جا رہی ہے تاہم یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس قتل کا مبینہ طور پر حکم دینے والے ’خفیہ ہاتھ‘ سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ بات اس لیے بھی قابل غور ہے کہ بہت سے حلقے خاشقجی کی موت کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا نام بھی لے رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ قانونی تفتیشی حقائق کن عوامل کی تصدیق کرتے ہیں، انہی دعووں کے تناظر میں خود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر بھی کہہ چکے ہیں کہ اس قتل سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کسی بھی طرح کوئی تعلق نہیں ہے۔
جہاں تک خاشقجی کے قتل اور ترک صدر ایردوآن کے سیاسی رویے اور بیانات کا سوال ہے تو حتمی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں صدر ایردوآن نے ترک عدلیہ کو عملاﹰ خود نہ بول سکنے والا ایک ایسا بچہ سمجھا، جسے اپنا موقف کہنے یا اس کے اظہار کی اجازت ہی نہیں تھی۔
حولیہ شَینک / م م / ع ا
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔