کیا تم شہید ہونا چاہتی ہو؟ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کیمرے کے سامنے ایک ایسی بچی سے یہ سوال کیا، جس کی آنکھوں سے آنسو روا ں تھے۔ ایردوآن کو اب اسی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔
اشتہار
ترک شہر قہرمان مرعش میں پیش آنے والے اس واقعے پر متعدد حلقوں کا خیال ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن بچوں کو پروپگینڈا کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایردوآن جنوب مشرقی انطالیہ میں اپنی جماعت ’اے کے پی‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران انہوں نے فوجی وردی میں ملبوس ایک چھوٹی سے بچی کو اسٹیج پر بلایا اور کہا، ’’کیا تم شہید ہونا چاہتی ہو؟‘‘
شدت جذبات سے اس بچی کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ اس لمحے ایردوآن نے کہا کہ فوجی روتے نہیں، ’’اگر تم میدان جنگ میں ماری گئی تو ہم تمہیں ترک پرچم سے ڈھک دیں گے۔‘‘ بعد ازاں ترک صدر نے پیار سے چھ سالہ بچی تیراس کے رخسار کا بوسہ بھی لیا تھا۔
ایردوآن کے اس خطاب کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید بحث شروع ہو گئی۔ متعدد صارفین کا خیال ہے کہ ریاست کی ذمہ داری بچوں کو ہلاکت کی ترغیب دینے کے بجائے انہیں ایک اچھی زندگی مہیا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
ترکی میں بچوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی ترک سرکاری ٹیلی وژن ٹی آر ٹی نے ایک چھ سالہ بچے کا ویڈیو پیغام نشر کیا تھا، جس میں وہ کہہ رہا ہے، ’’میرے والد علیحدگی پسند اور دہشت گرد کرد تنظیم ’پی کے کے‘ کے خلاف فری سیریئن آرمی کی صفوں میں ترک افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرے اور انہیں کامیابی دے۔ میں صدر کا شکر گزار ہوں، جو میرے لیے دادا کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔