ترک صدر کا سوچی کو فون، روہنگیا کے خلاف تشدد کی مذمت
5 ستمبر 2017
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ سیاست دان آنگ سان سوچی کو فون کرتے ہوئے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue
اشتہار
ترکی نے میانمار میں انسانی بحران کے حل کے لیے اپنی سفارتی کوششوں کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عید الاضحیٰ کے دوران بھی مسلم دنیا کے متعدد رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا تاکہ روہنگیا مسلمانوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟
01:56
This browser does not support the video element.
ترک صدر نے ٹیلی فون پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش سے بھی بات چیت کی تھی تاکہ میانمار حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
ترک صدر کے دفتری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ رجب طیب ایردوآن نے آنگ سان سوچی سے کہا ہے کہ تمام دنیا روہنگیا کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ’’شدید فکرمند‘‘ ہے۔
ترک صدر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ہر طرح کی دہشت گردی اور عام شہریوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔ میانمار میں انسانی صورتحال انتہائی سنگین ہوتی جا رہی ہے، جس سے نفرت جنم لے رہی ہے۔‘‘
آنگ سان سوچی اس وقت سے شدید بین الاقوامی دباؤ میں ہیں، جب سے انہوں نے روہنگیا کے حق میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ قبل ازیں ترکی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ رواں ماہ کے اوآخر تک یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے کر آئے گا۔
جمعہ یکم ستمبر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی روہنگیا اقلیت کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے ’شدید فکرمند‘ ہیں۔
دریں اثناء ترکی کے وزیر خارجہ بھی کل بدھ کے روز بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں تاکہ میانمار میں جاری لڑائی اور روہنگیا مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا جا سکے۔
آج انڈونیشیا کی وزیر خارجہ ریٹینو مارسوڈی نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی اور اس ملک کی اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے میانمار حکومت پر راکھین ریاست میں فوری طور پر کشیدگی میں کمی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انڈونیشیا نے انسانی بحران کے خاتمے کے لیے ایک پانچ نکاتی ایجنڈا بھی میانمار کے حوالے کیا ہے۔
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
پناہ کے متلاشی سولہ سو افراد کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائشیا کی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ افراد میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ہجرت کی یہ کہانی تصاویر کی زبانی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
تصویر: Reuters/R. Bintang
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: Asiapics
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Str
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔