ترک صدر کی طرف سے صدیوں پرانے حاجیہ صوفیہ میں قرآن کی تلاوت
31 مارچ 2018
ماضی میں بین المذاہبی کشیدگی اور سفارتی کھچاؤ کی علامت بنے رہنے والے استنبول کے صدیوں پرانے میوزیم حاجیہ صوفیہ میں ترک صدر ایردوآن کی طرف سے قرآنی آیات کی تلاوت کا تازہ ترین واقعہ بین الاقوامی سرخیوں کا موضوع بن گیا ہے۔
اشتہار
ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے، جو ایشیا اور یورپ دونوں براعظموں میں واقع ہے اور ماضی میں قسطنطنیہ کہلاتا تھا، ہفتہ اکتیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو آج اسی شہر میں ایک آرٹ فیسٹیول کا افتتاح کرنا تھا۔
حاجیہ صوفیہ میں فنون لطیفہ کے اس میلے کے افتتاح کے موقع پر ترک صدر نے اپنے خطاب کے دوران چند قرآنی آیات کی تلاوت بھی کی، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ آیات ’ان (افراد کی) روحوں کے لیے تلاوت کی ہیں، جنہوں نے ترک عوام کے لیے اپنے پیچھے یہ (حاجیہ صوفیہ) عظیم میراث چھوڑی ہے، اور جن میں خاص طور پر استنبول کو فتح کرنے والے حکمران بھی شامل ہیں۔‘‘
حاجیہ صوفیہ آج بھی استنبول کی ایک ایسی تاریخی پہچان ہے، جس نے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے ادوار میں کئی مختلف عہد اور بہت سے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اتار چڑھاؤ دیکھے۔
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔
تصویر: Rena Effendi
11 تصاویر1 | 11
تاریخی حقائق کی روشنی میں حاجیہ صوفیہ کو، جو عرف عام میں آیا صوفیہ بھی کہلاتا ہے، بازنطین مسیحی سلطنت کے دور میں چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر یہی تاریخی عمارت طویل عرصے تک یونانی آرتھوڈوکس کلیسا کی روحانی طاقت کا سرچشمہ بھی رہی تھی۔
کئی صدیوں تک مسیحیت کی یونانی آرتھوڈوکس شاخ کا روحانی مرکز بنے رہنے کے بعد 1453ء میں عثمانی مسلم حکمرانوں نے جب استنبول کو فتح کیا تھا، تو ساتھ ہی آیا صوفیہ کی حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے ایک عظیم الشان شاہی مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔
اب اکتیس مارچ کے روز ایک آرٹ فیسٹیول کے افتتاح کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے صدیوں پرانی اسی عمارت میں قرآن کی تلاوت اس لیے ایک بڑی خبر بن گئی کہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی، تو 1935ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں ایک ایسے میوزیم میں، جس کا اب قانوناﹰ کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، صدر ایردوآن کو وہاں اپنے خطاب کے دوران قرآن کی تلاوت نہیں کرنا چاہیے تھی تاکہ اس عمارت کی لادین شناخت برقرار رہتی۔
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
10 تصاویر1 | 10
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکی میں گزشتہ کئی برسوں سے صدر ایردوآن کی قدامت پسند سیاسی جماعت حکومت میں ہے، جو واضح طور پر اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور انقرہ حکومت میں کئی بار اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو دوبارہ ایک مسجد میں بدل دیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں یونان کی طرف سے، جس کے کئی مختلف تاریخی، سیاسی اور مذہبی عوامل کے باعث ترکی کے ساتھ اختلافات صدیوں پرانے ہیں، اس الزام کے ساتھ باقاعدہ احتجاج بھی کیا گیا ہے کہ ترک حکومت کی طرف سے حاجیہ صوفیہ کو مسلم مذہبی حوالے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیاحوں میں مقبول دَس چوٹی کے مقامات
ٹریول گائیڈ ’لونلی پلینیٹ‘ نے دنیا کے پانچ سو بہترین سیاحوں کی سائٹس کی ایک فہرست تیار کی ہے۔ اس میں بھارت کو بھی جگہ ملی ہے، اس پکچر گیلری میں دیکھیے، سیاحوں میں مقبول دنیا کے چوٹی کے دَس مقامات۔
تصویر: imago/blickwinkel
10. آیا (حاجيا) صوفیہ، ترکی
ترکی کے شہر استنبول میں واقع یہ خوبصورت عمارت تقریباً پندرہ سو برس قبل بازنطینی دورِ حکومت میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب یہ ایک گرجا گھر تھی، پھر مسجد بنی اور آج کل اسے ایک میوزیم کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی خاص بات اس کا بڑا گنبد ہے اور یہ استنبول کی نمایاں ترین علامت تصور ہوتی ہے۔ ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا كیتھيڈرل بھی رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
9. الحمرا، اسپین
یورپ کی سیر و سیاحت کو جانے والے سیاحوں میں جو مقامات سب سے زیادہ مقبول ہیں، اُن میں الحمرا بھی شامل ہے۔ غرناطہ شہر کے اس قلعے کو مورش تہذیب کے فن تعمیر کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ اسے تیرہویں صدی میں جنوبی سپین کے مسلم حکمرانوں کے دور میں تعمیر کیا گیا۔
تصویر: Getty Images
8. الحمرا، اگوازو آبشار، برازیل / ارجنٹائن
قدیم مقامی زبان میں اگوازو کا مطلب ہوتا ہے، ’اتھاہ پانی‘۔ اس مقام پر دریائے اگوازو 269 فٹ (82 میٹر) نیچے گرتا ہے۔ اس آبشار کی چوڑائی 2.7 کلومیٹر ہے۔ قدرتی نظارے کے لحاظ سے یہ زمین کے حیرت انگیز ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
7. كولوسيم، اٹلی
قدیم رومی دور کے اس اسٹیڈیم میں گلیڈی ایٹرز کے درمیان مقابلے ہوا کرتے تھے۔ رومی بادشاہ موت کی سزا پانے والوں کو یہاں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں شیروں کے سامنے ڈال دیتے تھے۔ اس عمارت کا استعمال اسٹیڈیم کے طور پر بھی ہوتا تھا یعنی وہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے جاتے تھے۔ یہاں پچاس ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CNP/R. Sachs
6. گرینڈ کینیئن، امریکا
گرینڈ کینیئن پہنچتے ہی زمین کے اربوں سال کے جغرافیائی سفر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گرینڈ کینیئن 450 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی گہرائی ایک ہزار آٹھ سو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ اصل میں کولوراڈو دریا نے گزشتہ اربوں سالوں میں پتھریلے پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر یہ گھاٹی بنائی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Schuler
5. تاج محل، بھارت
سفید سنگ مرمر سے بنا تاج محل سیاحوں کے پسندیدہ ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ آگرہ میں اس عمارت کو 1632ء میں مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی چہیتی بیگم ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ تاج محل ایرانی اور مغل فن تعمیر کا سنگم ہے۔ اسے بنانے میں 17 سال لگ گئے۔
تصویر: picture-alliance/David Ebener
4. چین کی عظیم دیوار
جنوب کے قبائلی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے سات ویں صدی میں چینی حکمرانوں نے یہ دیوار تعمیر کرنا شروع کی۔ کئی ہزار کلومیٹر طویل یہ دیوار دنیا میں انسانی ہاتھوں سے وجود میں آنے والا سب سے بڑا تعمیراتی کام ہے۔ بہت دعووں کے باوجود اسے اب تک کوئی بھی خلا باز بغیر کسی اضافی آلے کی مدد کے نہیں دیکھ پایا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
3. ماچو پیچو، پیرو
کھنڈرات کی صورت میں محفوظ یہ قدم شہر انکا تہذیب کی نشانی ہے۔ یہ شہر غالباً 500 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ انکا تہذیب کا اچانک غائب ہو جانا آج بھی ایک معمہ ہے۔ ماچو پیچو میں پتھر کی بنی 216 عمارتیں ہیں، جو سیڑھیوں سے جڑی ہیں۔ 2360 میٹر کی اونچائی پر یہ سب کچھ تعمیر کرنا یقینی طور پر ایک چیلنج رہا ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Leo F. Postl
گریٹ بیریر ریف، آسٹریلیا
شمال مشرقی آسٹریلیا کے ساحل پر دنیا کی مونگے کی سب سے بڑی چٹانیں ہیں، جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ سنگی مرجانی چٹانوں کا یہ علاقہ مچھلیوں اور سمندری حیات کی پندرہ سو سے زیادہ اقسام کا مسکن ہے۔ سمندر سے محبت کرنے والوں اور شوقیہ غوطہ خوری کرنے والوں کے لیے یہ دنیا کی سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ ہے۔
تصویر: Mark Kolbe/Getty Images
انگکور واٹ، کمبوڈیا
ٹریول گائیڈ ’لونلی پلینیٹ‘ کی ٹاپ ٹین کی اس فہرست میں کمبوڈیا کے انگکور واٹ مندر پہلے نمبر پر براجمان ہیں۔ انگکور واٹ کے لیے سب سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیے۔ بارہویں صدی عیسوی میں قدیم خمیر سلطنت کی یہ باقیات آج بھی فن تعمیر کے لحاظ سے سائنسدانوں، تاریخ دانوں اور سیاحوں کو حیران کرتی ہیں۔