ترک عدالت کا انسانی حقوق کے آٹھ کارکنوں کی رہائی کا حکم
صائمہ حیدر
26 اکتوبر 2017
ترکی کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کے لیے سرگرم آٹھ زیر حراست کارکنوں کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ حکم کم از کم اس وقت تک مؤثر رہے گا جب تک ان افراد پر دہشت گردی سے متعلق الزامات کی عدالتی سماعت جاری ہے۔
اشتہار
ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ اِیدل اَیسر، جرمن شہری پیٹر شٹوئڈٹنر اور سویڈش باشندے علی غراوی سمیت ان افراد کو اس سال جولائی میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ایک ڈیجیٹل سکیورٹی ٹریننگ ورکشاپ میں شریک تھے۔ ان گرفتاریوں کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خود پسندانہ طرز حکومت کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا۔
چھبیس اکتوبر بروز بدھ استنبول کی ایک عدالت نے اس مقدمے کی اولین سماعت کے دوران وہاں موجود دس ملزمان میں سے آٹھ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اب یہ آٹھوں ملزمان کم از کم اس مقدمے کے فیصلے تک جیل سے باہر رہیں گے۔ دیگر دو افراد کو پہلے ہی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
گیارہویں ملزم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ترکی کے چیئرمین تانَیر کیلِچ پر ایک دوسرے شہر میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور وہ ابھی جیل ہی میں رہیں گے۔ جن دس ملزمان کی حراست کے بارے میں عدالت نے سماعت کے پہلے روز اپنا حکم سنایا، ان پر استغاثہ کی طرف سے ملک سے بغاوت اور علیحدگی پسند کردوں کے علاوہ بائیں بازو کے عسکریت پسندوں کی معاونت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
انسانی حقوق کے انہی کارکنوں پر امریکا میں مقیم ترک جلا وطن مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک کے لیے کام کرنے کا بھی الزام ہے۔ اگر ان ملزمان کے خلاف الزامات ثابت ہو گئے، تو ان میں سے ہر کسی کو پندرہ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ان کارکنوں کی فی الحال رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنظیم ترکی میں انسانی حقوق کا دفاع جاری رکھے گی۔
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے بھی جرمن شہری شٹوئڈنر کی رہائی کے عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا ہے۔ گابریئل نے کہا کہ برلن حکومت کو امید ہے کہ ترکی میں مختلف مقدمات میں زیر حراست دیگر جرمن شہریوں کو بھی جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔
دو براعظموں میں واقع شہر استنبول کی سیر کیجیے
تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اسے ملک کا ثقافتی و اقتصادی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس کے کنارے واقع یہ شہر دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
ایا صوفیہ ( حاجیہ صوفیہ) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے، جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سلطان احمد مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے، جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول کا تاریخی باسفورس پُل، جسے پندرہ جولائی کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے دوران مزاحمت کرنے والے شہریوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’’شہدائے پندرہ جولائی پُل‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بیلربے کو ملاتا ہے اور آبنائے باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا تخت ہونے کی وجہ سے اس شہر میں عثمانی دور کے بادشاہوں اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے جگہ جگہ مساجد قائم کیں۔ زیر نظر تصاویر استبول کی معروف نیلی مسجد کے اندرونی حصے کے ہے، جو ترک ہنر مندوں کی محنت اور بادشاہوں کے ذوق کا عکاس ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام سرکاری سرپرستی میں چل رہا ہے۔ اس نظام کے تحت میٹرو بسیں، میٹرو ٹرینیں، کشتیاں اور زیر زمیں ریل کاریں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج بھی ترکی میں جابجا اس دور کی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تہواروں پر سلطنت عثمانیہ کے دور کی موسیقی اور دھنیں بجاتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
استبول کے مضافات میں نو چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں، جنہیں پرنسسز آئی لینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ جزائر سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہیں میں سے ایک جزیرے ہیبلی ادا کا ایک ساحلی منظر
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول کے ایک بازار میں روایتی آئیس کریم فروش۔ یہ آئیس کریم فروش اپنے حلیے اور پھر اس سے بھی زیادہ ان کرتبوں کے لئے مشہور ہیں، جو وہ گاہکوں کو آئیس کریم پیش کرنے سے قبل دکھاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترک کھانے بھی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی پلیٹ میں ترکی کے مشہور اسکندر کباب نظر آ رہے ہیں۔ گائے کے گوشت سے بنے یہ کباب انتہائی لذیز ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک مخصوص روٹی کو شوربے کی تہ میں بھگو کر دہی کے ہمراہ کھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کے روایتی میٹھے بھی لاجواب ہیں۔ مشہور زمانہ بکلاوے کے علاوہ فرنی، تری لیشا اور مختلف پھلوں سے تیار کیے گئے میٹھوں کا جواب نہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترک عوام چائے کے بھی بہت ہی شوقین ہیں۔ اسی لئے باہر سے آنے والے سیاحوں کو استنبول کے مختلف بازاروں میں انواع و اقسام کی چائے کی پتیاں باآسانی مل جاتی ہیں۔