ترک عوام امریکی ڈالر چھوڑیں، بچت لیرا میں کریں، صدر ایردوآن
26 نومبر 2019
صدر ایردوآن نے ترک عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مالیاتی بچت امریکی ڈالر اور دیگر بیرونی کرنسیوں کے بجائے ٹرکش لیرا میں کریں۔ انہوں نے کہا، ’’ڈالر اور دیگر کرنسیوں کو چھوڑ دیجیے۔‘‘
اشتہار
استنبول سے منگل چھبیس نومبر کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انقرہ میں ملکی پارلیمان میں ہونے والے اپنی جماعت اے کے پی کے پارلیمانی ارکان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ترکی کے تمام شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نجی مالیاتی وسائل کو زرمبادلہ میں رکھنے کے بجائے ملکی کرنسی میں تبدیل کرا لیں۔‘‘
صدر ایردوآن کے بقول ترک عوام کو ایسا قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے اجتماعی اظہار کے لیے بھی کرنا چاہیے تاکہ ان کے اپنے ملک کی کرنسی مزید مضبوط ہو۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، ''میں ترک قوم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ امریکی ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کو چھوڑ دیں۔ ہم سب کو واپس اپنے ملک کی کرنسی کی طرف لوٹنا چاہیے، ٹرکش لیرا کی طرف۔‘‘
اپنے خطاب میں صدر ایردوآن نے یہ بھی کہا کہ ترک معیشت کے مسائل کا شکار ہونے سے متعلق دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں، ٹرکش لیرا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اب کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہمیں اس شعبے میں بھی قومی وحدت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔‘‘
ماہرین اقتصادیات کے مطابق ترک معیشت گزشتہ برس کے اختتام پر کساد بازاری کا شکار ہو گئی تھی لیکن پھر سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں وہ اس کساد بازاری سے نکل بھی آئی تھی۔
اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک ترک کرنسی لیرا کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں تقریباﹰ 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔
اس بارے میں صدر ایردوآن نے حکمران جماعت کے پارلیمانی ارکان سے اپنے خطاب میں کہا، ''ترک معیشت میں بحالی کا عمل بہت تیز رفتاری سے جاری ہے اور میں غیر ملکی سرمایہ کار اداروں اور شخصیات کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور ترکی میں سرمایہ کاری کریں۔‘‘
آج منگل کے روز جب ترک صدر انقرہ کی پارلیمان میں یہ سب کچھ کہہ رہے تھے، اس وقت عالمی منڈیوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی شرح تبادلہ 5.75 لیرا فی ڈالر تھی، جو ایک ہفتہ پہلے کے مقابلے میں شرح فیصد کے لحاظ سے ایک فیصد کم تھی۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔