ترک وزیر خارجہ برسلز میں، یورپی یونین کو بہتر تعلقات کی امید
21 جنوری 2021
ترکی اور یورپی یونین کے باہمی روابط میں بہتری کی امید کے ساتھ ترک وزیر خارجہ چاوش اولو آج جمعرات کے روز ایک سرکاری دورے پر برسلز پہنچ گئے۔ گزشتہ برس ترکی اور یونین کے مابین کشیدگی بہت ہی زیادہ ہو گئی تھی۔
اشتہار
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کے برسلز پہنچنے پر ان کا استقبال یورپی یونین کے اعلیٰ ترین سفارت کار اور اس بلاک کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کیا۔ چاوش اولو کے اس دورے کا مقصد یورپی یونین کے دو اہم ترین رہنماؤں کے آئندہ دورہ ترکی کی تفصیلات طے کرنا ہے۔
یورپی کمیشن کی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین اور یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل میشل مستقبل قریب میں اس لیے انقرہ کا دورہ کریں گے کہ ان کو حال ہی میں اس دورے کی دعوت ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دی تھی۔
ٹھوس اقدامات اور دیرپا نتائج
برسلز میں آج جوزف بوریل کے ساتھ اپنی بات چیت کے آغاز پر ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا، ''دوطرفہ بنیادوں پر تعمیری ماحول اور اشتراک عمل کے مثبت ایجنڈے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین ایسے ٹھوس اقدامات کریں، جو دیرپا بنیادوں پر سود مند ثابت ہو سکیں۔‘‘
یورپی یونین اور ترکی کے مابین کشیدگی گزشتہ برس اس وقت ایک نئی انتہا تک پہنچ گئی تھی، جب ترکی نے چند متنازعہ سمندری علاقوں میں گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے اپنا ایک بحری جہاز روانہ کر دیا تھا۔ یونان اور قبرص کے مطابق یہ متنازعہ سمندری علاقے دراصل ان دونوں ممالک کی حدود میں ہیں۔
اسی لیے ترک حکومت کے اس اقدام پر جب یونین کے دو رکن ممالک یونان اور قبرص نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا تو نتیجہ انقرہ حکومت اور یونین کے مابین پہلے سے موجود کھچاؤ میں مزید اضافے کی صورت میں نکلا تھا۔
اشتہار
ترک یونانی مذاکرات
انقرہ حکومت کی طرف سے یونین کے ساتھ دوبارہ بہتر تعلقات کے سلسلے میں اب کافی گرم جوشی دکھائی جا رہی ہے۔ مولود چاوش اولو کے دورہ برسلز سے پہلے ترکی اور یونان نے سمندری حدود سے متعلق اپنے مشترکہ تنازعے کے حل کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کر لیا تھا۔
ایک عدالت کی جانب سے ترک شہر استنبول میں واقع آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد آج پہلی مرتبہ آیا صوفیہ میں نماز ادا کی گئی۔ اس عمارت کو مسجد قرار دینے پر عالمی سطح پر تنقید بھی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
آیا صوفیہ کے باہر بھی
جمعے کی نماز کے لیے آیا صوفیہ کے باہر بھی سیکنڑوں افراد موجود تھے۔
تصویر: AFP/O. Kose
کلیسا، مسجد، میوزم اب پھر مسجد
یہ عمارت چرچ کے لیے تعمیر کی گئی تھی تاہم عثمانی دور میں اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ گزشتہ صدی میں جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اس عمارت کو میوزیم میں بدلنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اب اب ایک پھر اسے اسے مسجد میں بدل دیا گیا ہے۔
تصویر: DHA
مسیحی علامات نہیں مٹائی جائیں گی
ترک حکام کے مطابق آیا صوفیہ میں موجود مسیحی علامات و نشانات نہیں مٹائے جائیں گے، تاہم نماز کے وقت انہیں پردوں سے ڈھانپ دیا جائے گا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
ترک صدر بھی آیا صوفیہ میں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ آیا صوفیہ میں جلد ہی نماز ادا کی جائے گی۔ جمعے کے روز وہ خود بھی آیا صوفیہ میں نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی ایردوآن کے لیے ایک سیاسی فائدے کا اقدام ہے۔
تصویر: AFP/Turkish Presidential Press
کورونا سے بچاؤ
آیا صوفیہ میں صحت سے متعلق حکام جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔ آیا صوفیہ میں نماز کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/O. Dogman
سماجی فاصلہ
آیا صوفیہ میں جمعے کی نماز کے لیے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر لوگوں سے باہمی فاصلے کا خیال رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
تصویر: DHA
آیا صوفیہ اب ٹکٹ نہیں
آیا صوفیہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ترکی کی معروف ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ عام سیاح اسے مسجد میں تبدیل کر دینے کے باوجود یہاں آتے رہیں گے، تاہم نماز کے وقت سیاحوں کی حرکت کو محدود کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اب آیا صوفیہ میں داخلے کا ٹکٹ بھی نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
ایردوآن کی سیاسی چال؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنا مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان موجود ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ تاہم ایردوآن نے یہ اقدام ترکی کے قوم پرست ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا۔
انقرہ اور ایتھنز کے مابین یہ بات چیت پچیس جنوری کو استنول میں ہو گی۔ دونوں ممالک کے مابین سمندری تنازعے سے متعلق یہ مذاکرات 2016ء سے معطل چلے آ رہے تھے۔
ایردوآن کی یورپی کمیشن کی سربراہ سے فون پر بات چیت
رواں ماہ کے اوائل میں ترک صدر ایردوآن نے یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تھی۔ اس گفتگو میں انہوں نے زور دیا تھا کہ انقرہ اور برسلز دونوں کو گزشتہ برس کی تلخیاں پس پشت ڈالتے ہوئے دوطرفہ روابط میں اب ایک نیا آغاز کرنا چاہیے۔
اسی تناظر میں انہوں نے یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین اور یورپی کونسل کے صدر شارل میشل کو ترکی کے دورے کی دعوت بھی دی تھی۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
انقرہ کے ساتھ دوبارہ بہتر روابط کے سلسلے میں یورپی یونین کا اب تک کا موقف یہ ہے کہ ترکی سے ملنے والے نئے اشارے مثبت ہیں مگر انقرہ حکومت کو اپنے بیانات کو ٹھوس عملی اقدامات کی شکل بھی دینا ہو گی۔
ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے یورپی یونین کا اتحادی بھی ہے۔ مگر گزشتہ برس انقرہ اور برسلز کے مابین کشیدگی کی وجہ کئی ایسے بین الاقوامی سیاسی معاملات بنے تھے، جن پر یونین کو شدید اعتراض تھا۔
ان وجوہات میں انقرہ کے یونان اور قبرص کے ساتھ اختلافات، متنازعہ سمندی علاقوں میں گیس کی تلاش کا عمل اور جنگ زدہ شام، لیبیا اور نگورنو کاراباخ کے تنازعات میں ترکی کا کردار بھی شامل تھے۔
م م / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)
’ترکی میں مارشل لاء‘ عوام راستے میں آ گئے
ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
عوام سڑکوں پر
ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Y. Okur
لوگ ٹینکوں پر چڑھ دوڑے
خبر رساں اداروں کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق انقرہ میں فوجی بغاوت کے مخالفین عوام نے ٹینکوں پر حملہ کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عوام میں غصہ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی علی الصبح ہی انقرہ میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کچھ لوگ خوش بھی
خبر رساں اداروں کے مطابق جہاں لوگ اس فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
ایردوآن کے حامی مظاہرین
ترک صدر ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کرفیو کا نافذ
ترکی کے سرکاری براڈ کاسٹر کی طرف سے نشر کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوج نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے جمعے کی رات ہی اس نشریاتی ادارے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Saltanat
ٹینک گشت کرتے ہوئے
انقرہ کی سڑکوں پر رات بھر ٹینک گشت کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
جنگی جہاز اڑتے ہوئے
استنبول میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات جیٹ طیارے نیچی پرواز کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/AA
ہیلی کاپٹرز سے نگرانی
بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کی خاطر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ رات کے وقت ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
عالمی برداری کی مذمت
ترکی کی موجودہ صورتحال پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کہنا کہ ترکی کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
ترک صدر محفوظ ہیں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’فوج کے اندر ایک چھوٹے سے ٹولے‘ کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت ناکام بنا دی جائے گی۔