ترک وطن کے عالمی معاہدے کے مخالف ممالک پر جرمن وزیر کی تنقید
8 دسمبر 2018
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ترک وطن کے ایک مجوزہ لیکن متنازعہ عالمی معاہدے کے مخالف ممالک پر شدید تنقید کی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس عالمی معاہدے کی تقریباﹰ یقینی طور پر عالمی برادری اگلے ہفتے مراکش میں توثیق کر دے گی۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ آٹھ دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس نئے عالمی معاہدے کی مراکش کے اسی نام کے شہر مراکش میں آئندہ ہفتے ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس میں توثیق تقریباﹰ یقینی ہے اور اس سلسلے میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ان ممالک پر سخت تنقید کی ہے، جو اب تک اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس نئے معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد عالمی ادارے کے رکن ممالک کے لیے لازمی تو نہیں ہو گا لیکن یہ اس وجہ سے دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک اولین اور تاریخی پیش رفت ہو گا کہ اس کے تحت تارکین وطن کے حقوق کو باقاعدہ تحفظ فراہم کر دیا جائے گا۔
اب تک اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے بڑے ممالک میں امریکا اور آسٹریلیا سرفہرست ہیں، جن کو خدشہ ہے کہ اس معاہدے کی اگر ایک بار عالمی سطح پر توثیق کر دی گئی، تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی اس پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی ہو جائے گا۔
اس معاہدے کو بین الاقوامی سطح پر متنازعہ اس وجہ سے بھی کہا جانے لگا ہے کہ کئی یورپی ممالک بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں، جن میں سے متعدد یورپی یونین کے رکن بھی ہیں۔
اس سلسلے میں کئی یورپی حکومتوں میں داخلی اختلافات بھی اب تک کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے رکن ملک سلوواکیہ کے وزیر خارجہ میروسلاو لائچاک نے اس وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ ان کے ملک نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔
یہی نہیں اب تک کئی دیگر یورپی ریاستیں بھی، جن میں ہنگری، آسٹریا، اٹلی، بلغاریہ، کروشیا، چیک جمہوریہ، پولینڈ اور سوئٹزرلینڈ بھی شامل ہیں، اس نئے عالمی معاہدے کی کھل کر مخالفت کر چکی ہیں۔
اس بارے میں جرمنی کے ہفت روزہ جریدے ڈئر اشپیگل کے ساتھ ایک انٹرویو میں ملکی وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ جو ممالک اس نئے مجوزہ عالمی معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کا رویہ ان لوگوں کی سوچ کا نتیجہ ہے، جو اس ’معاہدے کے خلاف بری نیت سے ایک دانستہ ڈس انفارمیشن مہم‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہائیکو ماس نے کہا، ’’یہ معاہدہ پہلی مرتبہ عالمی برادری کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ بین الاقوامی سطح پر ترک وطن پر کنٹرول، اس کے انتظام اور اس پر قانونی طور پر نظر رکھنے کا ایک باقاعدہ عالمی ڈھانچہ‘ طے پا سکے۔
دوسری طرف جرمن حکومت کو اندرونی طور پر بھی اس کی ان کوششوں کے خلاف مزاحمت کا سامنا ہے کہ ایسا ایک نیا عالمی معاہدہ اب طے پا جانا چاہیے۔ اس بارے میں جرمن پارلیمان کے متعدد ارکان کو یہ شکایت بھی ہے کہ میرکل حکومت نے ملکی پارلیمان کو اس معاہدے کے طے پا جانے کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے بہت تاخیر سے آگاہ کیا۔
م م / ع ح / ڈی پی اے
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔