ترک پولیس نے تقسیم اسکوائر خالی کرا لیا
12 جون 2013ترکی میں گزشتہ بارہ دنوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران منگل کے روز وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے کہا تھا کہ عوامی مظاہروں کا یہ سلسلہ مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ تقسیم اسکوائر میں موجود ہزاروں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور تیز دھار پانی استعمال کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی رات مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے مابیں جھڑپیں جاری رہیں تاہم صبح سویرے تک مظاہرین کو تقسیم اسکوائر سے نکالا جا چکا تھا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق استنبول کے تقسیم اسکوائر پر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ ہزاروں مظاہرین نے گیزی پارک میں پناہ حاصل کر لی ہے۔ یہ وہی پارک ہے، جہاں سے ان مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
گزشتہ روز استنبول کے علاوہ انقرہ میں بھی حکومت مخالف مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔ وہاں قائم امریکی سفارتخانے کے قریب جمع ہونے والے قریب پانچ ہزار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل برسائے۔ اس موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کے پاس بلڈوزر بھی تھے تاکہ وہ مظاہرین کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو ہٹاتے جائیں۔
وزیر اعظم ایردوآن آج بدھ کو ان ہزاروں مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات کرنے والے ہیں، جو گزشتہ ماہ کے آخر سے استنبول اور انقرہ میں حکومت مخالف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تنازعے کی وجہ
استنبول کے تقسیم اسکوائر کے قریب ہی واقع گیزی پارک میں درختوں کی کٹائی کے خلاف دیا جانے والا ایک پر امن دھرنا اس وقت پر تشدد رنگ اختیار کر گیا تھا جب اکتیس مئی کو پولیس نے اچانک ہی مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ہی انقرہ سمیت ترکی کے متعدد دیگر شہروں میں بھی لوگ حکومت کے خلاف احتجاج پر اتر آئے تھے۔
بہت سے سیکولر ترک باشندوں کے نزدیک اسلام پسند وزیر اعظم ایردوآن ایک ایسی مطلق العنان شخصیت ہیں، جو اپنے قدامت پسند اسلامی نظریات ان پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ ایردوآن ایسے الزامات کو رد کرتے ہیں تاہم گزشتہ دس برسوں سے برسر اقتدار ایردوآن بچوں کی پیدائش کے سلسلے زچہ خواتین کے سیزیریئن آپریشن کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر عورت کے کم ازکم تین بچے ہونے چاہییں۔ وہ ایسے قوانین کی بھی حمایت کرتے ہیں، جن کے تحت الکوحل کی فروخت پر پابندی عائد کی جا سکتی ہو۔
ایردوآن کا موقف
ترک وزیر اعظم کے بقول مظاہروں کو ہوا دینے والے دراصل انتہا پسند ہیں اور وہ ترکی کی بین الاقوامی ساکھ کو داغدار بنا دینا چاہتے ہیں۔ منگل کے دن انہوں نے ایسے مظاہروں کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت دہشت گردوں اور عوام کو اکسانے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اب کسی کو بھی اس طرح کی حرکات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مستحکم جمہوری ملک ترکی امریکا کا ایک اہم اتحادی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے سبب وہاں سے فرار ہو کر آنے والے ہزارہا شامی باشندوں نے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایردوآن شامی صدر بشار الاسد کے کڑے ناقد تصور کیے جاتے ہیں۔
ترکی کی معیشت کا سالانہ حجم 1.3 ٹریلین ڈالر بنتا ہے، جو کینیڈا کی معیشت کے سالانہ حجم کے تقریباﹰ برابر بنتا ہے۔ وہاں سیاحت کا شعبہ بھی بتدریج ترقی پا رہا ہے۔ گزشتہ برس سیاحت کی غرض سے 38 ملین افراد نے ترکی کا رخ کیا تھا۔
(ab/mm(AP, AFP