1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک کرنسی کی قدر میں کمی ، وجہ کیا ہے؟

13 دسمبر 2021

پیر کے روز ترک کرنسی کی قدر میں سات فیصد تک کی کمی ہوئی اور یہ ایک ڈالر کے مقابلے میں قریب 15 لیرا تک پہنچ گیا۔ ترکی کی کرنسی لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں نئی کم ترین قیمت پر پہنچ گئی ہے۔

Türkei Symbolbild Inflation
تصویر: Murad Sezer/REUTERS

ترک کرنسی کی قدر میں اس حیرت انگیز کمی کی وجوہات حکومت کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پیر کے دن صرف چند منٹوں میں لیرا کی قدر میں سات فیصد کی کمی ہوئی اور یوں پندرہ لیرا ایک امریکی ڈالر کی قدر کے برابر ہو گئے۔

اس تناظر میں ترکی میں متعدد ماہر معاشیات صدر رجب طیب ایردوآن کی معاشی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ خیال ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام تک شرح سود میں مزید کمی کر دی جائے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ ایک برس میں لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف قدر کھو چکا ہے۔

ترک کرنسی کی قدر میں کمی ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب ترک مرکزی بینک کی کوشش تھی کہ ایک لیرا کی قدر چودہ امریکی ڈالر سے زیادہ نہ گرے۔ اس مقصد کی خاطر سینٹرل بینک نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فارن ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالرز فروخت کرنا بھی شروع کر دیے تھے۔

سینٹرل بینک کی مشکلات

 ترک صدر ایردوآن کے دباؤ کی وجہ سے سینٹرل بینک نے پالیسی ریٹ چار فیصد تک کم کر دیا تھا، جو صارفین کے لیے باعث تشویش بھی بنا۔ پالیسی ریٹ دراصل سینٹرل بینک کی طرف سے کمرشل بینکوں اور قرض دہندگان کو دی جانے والی رقوم پر سود کے مترادف ہوتا ہے۔

 حالیہ عرصے میں ترک اقتصادی مارکیٹ میں مندی کی وجہ سے سرمایہ کار اور عام شہریوں نے ایردوآن کی خطرناک اقتصادی پالیسیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ صرف گزشتہ ماہ ہی ترکی میں افراط زر کی شرح میں اکیس اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا، جس کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے کیونکہ ترک اقتصادیات کا زیادہ تر دارومدار امپورٹس پر ہے۔

مانیٹرنگ پالیسی پر سیاست

ترکی کی کرنسی میں اس کمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ برس کے اواخر کے مقابلے میں اب ترک لیرا کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے۔

 ایک وقت میں اپنے داماد کو وزیر خزانہ  بنا دینے والے صدر ایردوآن کو کامل یقین تھا کہ  پالیسی ریٹ (سود کی شرح) میں کمی سے ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔

عمومی اقتصادی حکمت کے برعکس ایردوآن نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ کہ ہائی انٹرسٹ ریٹ دراصل افراط زر کی شرح کو بڑھاتی ہے۔ زیادہ تر سینٹرل بینک انٹرسٹ ریٹ میں کٹوتی کو افراط زر پرکنٹرول کے لیے کرتے ہیں اور اس کو اس لیے بڑھاتے ہیں تاکہ مسقبل کی منصوبہ بندی کی خاطر افراط زر کی شرح کو چیک کیا جا سکے۔

ع ب، ک م (خبر رساں ادارے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں