پیر کے روز ترک کرنسی کی قدر میں سات فیصد تک کی کمی ہوئی اور یہ ایک ڈالر کے مقابلے میں قریب 15 لیرا تک پہنچ گیا۔ ترکی کی کرنسی لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں نئی کم ترین قیمت پر پہنچ گئی ہے۔
اشتہار
ترک کرنسی کی قدر میں اس حیرت انگیز کمی کی وجوہات حکومت کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پیر کے دن صرف چند منٹوں میں لیرا کی قدر میں سات فیصد کی کمی ہوئی اور یوں پندرہ لیرا ایک امریکی ڈالر کی قدر کے برابر ہو گئے۔
اس تناظر میں ترکی میں متعدد ماہر معاشیات صدر رجب طیب ایردوآن کی معاشی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ خیال ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام تک شرح سود میں مزید کمی کر دی جائے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ ایک برس میں لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف قدر کھو چکا ہے۔
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب ترک مرکزی بینک کی کوشش تھی کہ ایک لیرا کی قدر چودہ امریکی ڈالر سے زیادہ نہ گرے۔ اس مقصد کی خاطر سینٹرل بینک نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فارن ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالرز فروخت کرنا بھی شروع کر دیے تھے۔
سینٹرل بینک کی مشکلات
ترک صدر ایردوآن کے دباؤ کی وجہ سے سینٹرل بینک نے پالیسی ریٹ چار فیصد تک کم کر دیا تھا، جو صارفین کے لیے باعث تشویش بھی بنا۔ پالیسی ریٹ دراصل سینٹرل بینک کی طرف سے کمرشل بینکوں اور قرض دہندگان کو دی جانے والی رقوم پر سود کے مترادف ہوتا ہے۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
10 تصاویر1 | 10
حالیہ عرصے میں ترک اقتصادی مارکیٹ میں مندی کی وجہ سے سرمایہ کار اور عام شہریوں نے ایردوآن کی خطرناک اقتصادی پالیسیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ صرف گزشتہ ماہ ہی ترکی میں افراط زر کی شرح میں اکیس اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا، جس کے ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے کیونکہ ترک اقتصادیات کا زیادہ تر دارومدار امپورٹس پر ہے۔
مانیٹرنگ پالیسی پر سیاست
ترکی کی کرنسی میں اس کمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ برس کے اواخر کے مقابلے میں اب ترک لیرا کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے۔
ایک وقت میں اپنے داماد کو وزیر خزانہ بنا دینے والے صدر ایردوآن کو کامل یقین تھا کہ پالیسی ریٹ (سود کی شرح) میں کمی سے ملکی معیشت کو تقویت ملے گی۔
عمومی اقتصادی حکمت کے برعکس ایردوآن نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ کہ ہائی انٹرسٹ ریٹ دراصل افراط زر کی شرح کو بڑھاتی ہے۔ زیادہ تر سینٹرل بینک انٹرسٹ ریٹ میں کٹوتی کو افراط زر پرکنٹرول کے لیے کرتے ہیں اور اس کو اس لیے بڑھاتے ہیں تاکہ مسقبل کی منصوبہ بندی کی خاطر افراط زر کی شرح کو چیک کیا جا سکے۔