ترک کوسٹ گارڈز ان درجنوں تارکین وطن کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں، جو بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان جانا چاہتے تھے، تاہم ان کی کشتی ڈوب گئی۔
اشتہار
ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق مغربی ترک ساحلی علاقےمیں کشتی کو حادثہ پیش آ جانے کے بعد درجنوں تارکین وطن اس چٹانی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں، جنہیں بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ربر کی کشتی پر 51 تارکین وطن سوار تھے، مگر بحیرہء ایجیئن میں ترک علاقے ڈیکِیلی کے قریب یہ کشتی ڈوب گئی۔
ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ درجنوں تارکین وطن چٹانی سمندری علاقے میں مدد کے طالب ہیں، جب کہ ان کو ریسکیو کرنے کی کارروائیوں میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں سب سے پہلے چار بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سمندر سے نکالا گیا اور انہیں دوبارہ ڈیکیِلی کی بندرگاہ پر لایا گیا۔
فی الحال ان تارکین وطن کی شہریتوں کے بارے میں اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔ ٹی وی پر نظر آنے والے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تباہ ہونے والی ربر کی کشتی کے ساتھ چٹانوں میں بہت سے تارکین وطن موجود ہیں، تاہم اس حادثے میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں ترکی سے بحیرہء ایجیئن ہی کے راستے قریب ایک ملین افراد یونان پہنچنے تھے اور اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جاتا ہے۔
ترکی سے رومانیہ ، مہاجرت کا ایک خطرناک راستہ
01:44
ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مارچ 2016ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے تارکین وطن کو بحیرہء ایجیئن عبور کرنے سے روکے جب کہ اس کے بدلے اسے مالی مدد سمیت متعدد مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اس ڈیل کے بعد تارکین وطن کی اس راستے سے یورپ آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی مگر کچھ تارکین وطن اب بھی یونان پہنچنے کے لیے اسی راستے کا استعمال کرتے ہیں۔