یونان کی پولیس نے بتایا ہے کہ ترک یونان سرحد پر تین خواتین کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ پولیس کے مطابق ان خواتین کے جسموں میں زخموں کے نشانات ہیں، جن سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ مجرمانہ نوعیت کے قتل ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
اشتہار
آج بروز جمعرات یونانی پولیس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ابھی ان خواتین کی طبی جانچ کی جانی باقی ہے جس کے بعد ہی ان کی موت کی اصل وجہ کا تعین کیا جا سکے گا۔ ان خواتین کی لاشیں بدھ کے روز دریائے ایروس کے قریب ملی تھیں۔
دریائے ایروس ترکی اور یونان کے مابین قدرتی سرحد کا کام دیتا ہے اور مہاجرین کے لیے یورپ میں داخلے کے لیے اہم گزرگاہ ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان خواتین کی عمریں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں اور امکاناﹰ ان کا تعلق کسی ایشیائی ملک سے ہو سکتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والی خواتین کی گردنوں کو کسی تیز دھار آلے سے زخمی کیا گیا ہے۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ آیا یہ خواتین مہاجر یا تارکین وطن تھیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
تینوں جواں سال خواتین کی لاشیں ایک کسان کو دریائے ایروس کے کنارے ایک کھیت سے ملی تھیں۔ یورپی یونین کی مشرقی ریاستوں کی جانب سے مہاجرین کے غیر قانونی طور پر بارڈر پار کرنے کے خلاف کریک ڈاؤن کے سبب مہاجرین اور تارکین وطن اس دریا کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یونان اپنے بارڈر ایریا کو مضبوط بنانا چاہتا ہے اور اسی لیے یونانی پولیس نے مزید افرادی قوت کو بھی طلب کیا ہے۔ یونانی حکام کا کہنا ہے کہ جنوری سے جولائی کے دورانیے میں دریا پار کرتے ہوئے بارہ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔
یونانی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی میں یونانی بارڈرز پر رواں برس آٹھ ہزار چار سو پناہ گزینوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک سال قبل اسی مدت کے دوران یہ تعداد ایک ہزار چھ سو تھی۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔