1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

تشدد اور ترقی کا نظریہ

23 نومبر 2025

عہد حاضر میں بھی جدید علوم پر مہارت حاصل کر لینے والے چند ممالک ایشیائی اور افریقی ممالک کو دوبارہ اپنی کالونیاں بنانا چاہتے ہیں۔ صدیوں بعد بھی طاقتور اور کمزور کے مابین رشتے میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔

ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

تاریخ میں دو متضاد نظریات باہم متصادم رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تاریخی عمل بدلتا رہتا ہے۔ تشدد تاریخ میں ہمیشہ تباہی اور بربادی لاتا ہے۔ جنگ  کی صورت میں قتل عام ہوتا ہے۔ دیہاتوں اور شہروں کو جلا دیا جاتا ہے اور انسان کی صدیوں کی محنت کو برباد کر کے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ نئی زندگی کی ابتداء کرے۔

یہ نئی زندگی سائنس، سماجی علوم، ادب اور آرٹ کی بنیادوں پر دوبارہ سے شروع ہوتی ہے۔ اس تضاد میں  انسان تھکتا نہیں ہے وہ زندگی کو جاری رکھتا ہے اور ایک  نئی تاریخ کی تشکیل کرتا ہے۔

مورخین اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا وقت کے ساتھ تشدد کو ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا تشدد کے باوجود انسان ترقی کر سکتا ہے۔ اس موضوع پر Steven Pinker نے اپنی کتاب "Better Angles Of Human Nature" میں تہذیب کے ارتقاء کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یورپ کے عہد وسطیٰ میں تشدد اپنی انتہا پر تھا۔ زمیندار اپنے کسانوں کو اذیت دیتا تھا۔ مالک غلاموں کی ننگی پیٹھ پر کوڑے مارتا تھا۔ ذرا سے شک و شبہ پر غریبوں کو پھانسی دے دی جاتی تھی۔ خاص طور سے باغیوں اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ بے انتہا ظالمانہ سلوک ہوتا تھا۔ یہ اذیتیں اور سزائیں پبلک کے سامنے دی جاتیں تھیں۔ سزا پانے والوں کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے تھے۔ خنجر مار کر جسم کی انتڑیاں باہر نکال دیتے تھے۔ یہ سزائیں ریاست کے عہدے داروں کی موجودگی میں دی جاتی تھیں اور لوگ ان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آکر پلیٹ فارم  کے اردگرد جمع ہو جایا کرتے تھے۔ ان کے لیے یہ ایک تماشہ ہوتا تھا۔ ان میں رحم دلی کے جذبات کم ہی ہوتے تھے۔ سزاؤں  کے خاتمے کے بعد مجمع واپس چلا جاتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے کوئی دردناک منظر نہیں دیکھا۔ زندگی معمول کے مطابق جاری رہتی تھی۔

Pinker نے عہد وسطیٰ کہ ان مناظر کی تفصیل دینے کے بعد اس تاریخی ارتقا کا بیان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تشدد میں کمی واقع ہوئی۔ ان اسباب میں ریاست کا قیام، سیاسی استحکام، قانون کی بالادستی، تجارتی  سرگرمیاں تہواروں اور رسومات میں لوگوں کا آپس میں ملنا۔ تعلیمی معیار میں اضافہ ہونا۔ رواداری سے مذہبی تعصبات کا خاتمہ ہونا۔ ادب، آرٹ اور موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو احساس محبت سے دوچار کرنا۔ کھانے کے آداب اور نشت و برخاست میں مہذب رویہ اختیار کرنا اور مسائل کو دلیل کی بنیاد پر حل کرنا اور عورتوں کا احترام کرنا۔ ان وجوہات کی بنیاد پر Pinker کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ کے پرامن دور میں رہ رہے ہیں۔ Pinker کہ اس نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے مورخین کی دلیل یہ ہے کہ ہم آج بھی پرتشدد عہد میں رہ رہے ہیں فرق یہ ہے کہ آج کے عہد میں تشدد مزید شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ریاستوں نے اپنے مفادات کی خاطر نئی نئی اذیتیں دریافت کی ہیں۔ امریکہ نے ویتنام میں زہریلی گیس، کارپٹ بمباری اور جسمانی اذیتوں سے اپنے مخالفوں کو زندگی سے محروم کیا۔ اسکی یہ پالیسی موجودہ عراق میں بھی جاری رہی۔ جہاں ابوغریب جیل میں قیدیوں کو اذیتیں دے  کر ان کی تصاویر لیں اور انہیں دوستوں کو دکھا کر ان سے لطف اندوز ہوئے۔

فرانس میں الجزائر میں نہ صرف عربوں کی زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ جنہوں نے مزاحمت کی انہیں قید و بند میں رکھا۔ عورتوں کی بے حرمتی کی۔ اور الجزائر کو فرانس کا ایک حصہ بنایا۔

امریکہ اور یورپی ملکوں کی پرتشدد پالیسی ایشیا اور افریقہ کی کالونیوں میں رہی۔ نام نہاد تہذیبی ترقی کے باوجود ان ظالمانہ کاروائیوں پر کم ہی آواز اٹھائی گئی۔  ملکوں کی آپس کی جنگوں، نسل کشی اور لسانی و فرقہ وارانہ فسادات یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں تشدد کی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس کا اظہار دنیا کے مختلف حصوں میں ہوتا رہتا ہے۔

تشدد کے باوجود انسانی معاشرے میں سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی علوم میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جن ملکوں نے ان علوم میں مہارت حاصل کی ہے۔ ان کی مدد سے وہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو دوبارہ سے اپنی کالونیز بنانا چاہتے  ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ان ملکوں کے معدنی ذخائر پر قبضہ کیا جائے اور لوگوں کو اس قدر مجبور کر دیا جائے کہ ان میں مزاحمت کی طاقت نہ رہے۔ لہذا ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کے لیے آج بھی تشدد کی پالیسی کو معاشی شکل دے کر ان کی توانائی اور خواہشات کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سائنس اور ٹیکنالوجی کی  ترقی ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو غلام بنا کر رکھتی ہے۔

لہذا موجودہ دنیا بھی نہ صرف طبقات میں منقسم ہے بلکہ یہاں طاقتور اور کمزور کے درمیان اب بھی صدیوں سے چلا آ رہا وہی رشتہ قائم ہے، جس میں کمزور ممالک کے شہریوں کو ہر قسم کا تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے اور انہیں طاقتور ملکوں کو مزید ترقی یافتہ بنانے کے لیے اپنی جانوں تک کی  قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں