’تشدد میں ملوث‘ سی آئی اے کی نئی سربراہ جینا ہاسپل کون ہیں؟
18 مئی 2018
امریکی سینیٹ نے ملکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی پہلی خاتون سربراہ کے طور پر جینا ہاسپل کی تقرری کی توثیق کر دی ہے۔ مشتبہ دہشت گردوں پر تشدد کے ایک خفیہ امریکی پروگرام کا حصہ رہنے والی یہ تجربہ کار انٹیلیجنس اہلکار کون ہیں؟
اشتہار
جینا ہاسپل کو امریکا کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یا سی آئی اے کی نئی اور پہلی خاتون ڈائریکٹر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نامزد کیا تھا، جن کی تقرری کی واشنگٹن میں امریکی سینیٹ نے جمعرات سترہ مئی کی شام اکثریتی رائے سے توثیق بھی کر دی۔
جینا ہاسپل کی اس عہدے پر نامزدگی کی سینیٹ کے 54 ارکان نے حمایت اور 45 نے مخالفت کی جبکہ ان کی تقرری کی توثیق کے لیے 100 رکنی سینیٹ میں محض سادہ اکثریت یعنی 51 ووٹ درکار تھے۔ تجربہ کار ریپبلکن سینیٹر جان میکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ واشنگٹن سے باہر اپنے سرطان کے مرض کا علاج کروا رہے ہیں۔
جان میکین کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ وہ ویت نام کی جنگ کے دوران خود بھی قیدی رہ چکے ہیں، جن پر دوران قید تشدد بھی کیا گیا تھا۔ اسی پس منظر میں انہوں نے سینیٹ میں اپنے ساتھی ارکان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جینا ہاسپل کی نامزدگی کو مسترد کر دیں کیونکہ وہ سی آئی اے کی ایک اعلیٰ اہلکار کے طور پر زیر حراست مشتبہ دہشت گردوں پر تشدد کے ایک خفیہ پروگرام کا اہم حصہ رہی ہیں۔
جینا ہاسپل کے حوالے سے یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ 2002ء میں تھائی لینڈ میں سی آئی اے کی اسٹیشن چیف تھیں۔ ان کی سربراہی میں سی آئی اے وہاں ایک ایسا خفیہ مرکز یا ’بلیک سائٹ‘ چلایا کرتی تھی، جس میں مشتبہ عسکریت پسندوں سے تفتیش کے دوران ان کے خلاف واٹر بورڈنگ سمیت کئی طرح کے پرتشدد طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔
یہ ’بیلک سائٹ‘ امریکا پر 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد قائم کی گئی تھی۔ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے دوران ان پرتشدد طریقہ ہائے تفتیش کے استعمال کی تب ویڈیو ریکارڈنگز بھی تیار کی گئی تھیں، جو بعد میں جینا ہاسپل کی ملی بھگت سے تلف بھی کر دی گئی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی سینیٹ میں ہاسپل کی نامزدگی کی توثیق سے قبل ارکان سینیٹ کی نمائندہ ایک کمیٹی نے ان سے جو سوالات پوچھے، ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آیا وہ اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ ان کی سربراہی میں یہ امریکی ایجنسی واٹر بورڈنگ سمیت تفتیش کے پرتشدد طریقوں میں سے کچھ بھی دوبارہ استعمال نہیں کرے گی۔
امریکا میں داخلی سیاسی اور سماجی طور پر جینا ہاسپل کی سی آئی اے کی ڈائریکٹر کے طور پر تقرری کی اس توثیق پر کس طرح کی تنقید کی جا رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کی شہری آزادیوں کی تنظیم سول لبرٹیز یونین یا ACLU نے ہاسپل کی ان کے اس عہدے پر تقرری کو امریکی تاریخ پر ایک ’سیاہ دھبے‘ کا نام دیا ہے۔
اے سی ایل یو کے ایک مرکزی عہدیدار کرسٹوفر اینڈرز نے کہا، ’’یہ ہماری جمہوریت کی بھرپور تذلیل ہے کہ (جینا ہاسپل کی تقرری کی توثیق کے حوالے سے) امریکی سینیٹرز شفافیت اور احتساب کے عمل سے متعلق اپنے فرائض کار انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
8 تصاویر1 | 8
اے سی ایل یو نے اس بارے میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’جینا ہاسپل نے سمندر پار کس کس طرح کی پرتشدد کارروائیوں کی نگرانی کی: ننگے یا نیم برہنہ زیر حراست افراد کو کئی کئی دنوں تک زنجیریں پہنا کر چھتوں سے لٹکایا گیا، انہیں اٹھا اٹھا کر دیواروں پر پٹخا جاتا رہا، انہیں واٹر بورڈنگ کے ذریعے یہ خوفناک احساس دلایا گیا کہ جیسے وہ ڈوب رہے تھے اور انہیں مسلسل خوراک اور نیند سے محروم رکھا گیا۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی عہدیدار لارا پِٹّر کے الفاظ میں، ’’جینا ہاسپل کی ان کے نئے عہدے پر توثیق امریکا کی اس قابل مذمت ناکامی کا ایک ضمنی نتیجہ ہے کہ یہ ملک یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ سی آئی اے کی طرف سے کیا جانے والا تشدد ایک جرم تھا۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ نے جینا ہاسپل کو دو ماہ قبل مارچ میں اس وقت سی آئی اے کی ڈپٹی ڈائریکٹر نامزد کیا تھا، جب اس خفیہ ادارے کے اس وقت کے سربراہ کو نیا ملکی وزیر خارجہ نامزد کر دیا گیا تھا۔ تب سے اب تک وہ سی آئی اے کی قائم مقام سربراہ کے طور پر کام کر رہی تھیں اور اب ان کی اس عہدے پر مستقل تعیناتی کی توثیق بھی کر دی گئی ہے۔
م م / ع ح / ڈی ڈبلیو
اردن کے شاہ حسین کا عشق اور سی آئی اے کا جال
اردن کے شاہ حسین کے دورہٴ امریکا کو پرلطف بنانے کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے خصوصی منصوبہ بندی کی۔ اس مقصد کے لیے شاہ حسین کی اِس دورے کے دوران ہالی ووڈ اداکارہ سوزن کابوٹ کے ساتھ ملاقات کرائی گئی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
کینیڈی فائلز اور سوزن کابوٹ
حال ہی میں امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی پینتیس ہزار خفیہ فائلیں عام کی گئیں۔ انہیں ’کینیڈی فائلز‘ بھی کہا گیا ہے۔ ان میں خاص طور پر اداکارہ سوزن کابوٹ اور اردن کے شاہ حسین کے درمیان روابط سامنے آئے ہیں۔ سوزن کابوٹ امریکی فلمی صنعت کی دوسرے درجے کی اداکارہ تصور کی جاتی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
شاہ حسین بن طلال
اردن کے موجودہ فرمانروا شاہ عبداللہ کے والد حسین، طلال بن عبداللہ کے بیٹے تھے۔ اُن کے خاندانی دعوے کے مطابق شاہ حسین ہاشمی نسبت رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام کی چالیسیویں پشت سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ انگینڈ کی فوجی اکیڈمی کے فارغ التحصیل تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسجدٍ اقصیٰ میں قاتلانہ حملہ
بیس جولائی سن 1951 کو حسین اور اُن کے والد شاہ عبداللہ مسجد الاقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے، جب اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں اُس وقت کے اردنی بادشاہ عبداللہ قتل ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv/WHA
نئے اردنی بادشاہ کی ذہنی بیماری اور نا اہلی
شاہ عبداللہ کے قتل کے بعد اردن کی حکمرانی اُن کے بیٹے طلال کو ضرور سونپی گئی لیکن صرف ایک سال بعد ہی ایک ذہنی بیماری شیزوفرینیا کی تشخیص کی وجہ سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حکومت سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ATP Bilderdienst
اردن کا ٹین ایجر بادشاہ
شاہ طلال کی نا اہلی کے بعد سولہ سالہ حسین کو اردن کا نیا بادشاہ بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ اردن اسی دور میں برطانیہ سے آزادی کی کوششوں میں تھا اور اِن حالات میں شاہ حسین نے مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادی بننے کا انتخاب کیا۔ امریکا بھی مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کی تلاش میں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شاہ حسین کا پہلا دورہ امریکا
سن 1959 میں شاہ حسین امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے اور صدر آئزن آور سے ملاقات کی۔ امریکی خفیہ ادارے نے اس دورے کو ’محبت کا یادگار سفر‘ بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ سی آئی اے کی جانب سے ’ محبت کا جال‘ بچھانے کی یہ چال برسوں عام نہیں ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
محبت کا جال
مختلف رپورٹوں کے مطابق شاہ حسین خوبصورت عورتوں کے دلدادہ تھے۔ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ رابر ماہیو اردنی اشرافیہ کے ساتھ گہرے روابط رکھتے تھے اور اُن کی اطلاعات کی روشنی میں امریکی شہر لاس اینجلس میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
لاس اینجلس کی پارٹی
امریکی شہر لاس اینجلس کی پارٹی میں شاہ حسین کی پہلی ملاقات سوزن کابوٹ سے ہوئی۔ شاہ حسین اپنی پہلی بیوی شریفہ سے دو برس کی شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ لاس اینجلس کی پارٹی میں حسین نے سوزن کابوٹ کو نیویارک میں ملاقات کی دعوت دی۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے شاہ حسین اور سوزن کابوٹ کے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ امریکی اداکارہ سے ملاقات کے لیے شاہ حسین خصوصی محافظوں کی نگرانی میں جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
ملکہ مونا سے شادی اور سوزن کابوٹ
امریکی خفیہ ادارے نے سوزن کابوٹ پر دباؤ بڑھایا کہ وہ شاہ حسین سے جسمانی تعلقات استوار کرے اور دوسری جانب اردنی بادشاہ اس تعلق کی میڈیا پر آنے سے بھی محتاط تھے۔ اٹھارہ اپریل سن 1959 کو شاہ حسین اکیلے ہی واپس اردن روانہ ہو گئے اور پھر سن 1961 میں انہوں نے ایک برطانوی خاتون سے شادی کی جو بعد میں ’ملکہ مونا‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سوزن کابوٹ کے ساتھ رابطہ
خفیہ دستاویزات کے مطابق شاہ حسین کئی برس تک سوزن کابوٹ کو خط تحریر کرتے رہے۔ دوسری جانب ملکہ مونا سے اُن کے چار بچے پیدا ہوئے اور یہ شادی سن 1972 میں ختم ہوئی۔ موجودہ شاہ عبداللہ بھی ملکہ مونا ہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Larsen
سوزن کابوٹ سے تعلق ختم ہو گیا
امریکی اداکارہ سوزن کابوٹ کے ساتھ شاہ حسین نے اپنا تعلق اُس وقت ختم کر دیا جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ یہودی النسل ہے۔ دوسری جانب شاہ حسین کی تیسری بیوی علیا الحسین سن1977 میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone Press
شاہ حسین کی چوتھی شادی
سن 1978 میں اردنی بادشاہ نے ایلزبیتھ نجیب الحلبی سے شادی کی اور وہ ملکہ نور کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اس بیوی سے بھی چار بچے پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ossinger
سوزن کابوٹ کے لیے اردنی وظیفہ
سورن کابوٹ کے قاتل بیٹے کے ایک وکیل کے مطابق اردنی دربار سے کابوٹ کو ماہانہ 1500 ڈالر کا وظیفہ دیا جاتا تھا۔ سوزن کابوٹ کا ایک بیٹا بھی تھا اور اُسی نے اس خاتون اداکارہ کو سن 1986 میں دماغی خلل کی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
شاہ حسین کا انتقال
شاہ حسین سات فروری سن 1999 کو سرطان کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ وہ سینتالیس برس تک اردن کے حکمران رہے۔ اُن کے دور میں عرب اسرائیل جنگ میں انہیں شکست کا سامنا رہا۔ وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے دستخطی بھی تھے۔