خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانوں کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ بیان پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس بات کا علان قطری حکام کی طرف سے کیا گیا ہے۔
اشتہار
قطر کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کہا گیا ، '' ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارا ایک مشترکہ بیان پر اتفاق ہوگیا ہے جو امن کے لیے پہلا قدم ہے۔‘‘
افغان طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان ہونے والی اس دو روزہ ملاقات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ پر جلد اتفاق ہو سکے گا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واشنگٹن حکومت کو بھی امید ہے کہ یہ روڈ میپ یکم ستمبر تک تیار ہو سکے جس کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو فورسز کی واپسی بھی ممکن ہو سکے گی۔
دوحہ میں افغانوں کے مابین اتوار پانچ جولائی کو شروع ہونے والی ملاقات پیر کو ختم ہوئی۔ تاہم اس بارے میں مشترکہ بیان پر اتفاق رائے آج منگل سات جولائی کو سامنے آیا ہے۔
اس ملاقات میں افغان طالبان کے علاوہ افغان حکومت کے نمائندے، خواتین اور سول سوسائٹی کے ارکان شریک ہوئے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے بعد وہاں اسلامی قانونی نظام نافذ کیا جائے گا، اسلامی اقدار کے اسلامی فریم ورک کے مطابق خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے برابری کو یقینی بنایا جائے گا۔
'طالبان اور افغان حکام کے درمیان تشدد میں کمی پر اتفاق‘
قطر اور جرمنی کی میزبانی میں ہونے والی افغانوں کے مابین اس کانفرنس کے حوالے سے جرمن سفارت کار نے بھی کہا ہے کہ افغان طالبان اور حکام نے ''تشدد میں کمی لانے کا وعدہ‘‘ کیا ہے۔ یہ مذاکرات جرمنی کی کوششوں سے ممکن ہوئے۔
افغانستان کے لیے جرمنی کے نمائندہ خصوصی مارکُس پوٹزل کے مطابق اس ملاقات کے بعد فریقین نے افغانستان میں تشدد میں کمی کی اپیل کی اور اس میں کمی لانے کی یقین دہائی کرائی۔
جنگ سے متاثرہ افغان بچے
02:03
خیال رہے کہ افغان طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے نئے مرحلے کا آغاز آج منگل نو جولائی سے ہو رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق وہ امید کر رہے ہیں کہ یکم ستمبر تک ایک امن معاہدے پر اتفاق ہو جائے گا۔
دوسری طرف افغانستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی کہا ہے کہ 'افغانوں کی طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقات ایک بڑی کامیابی ہے۔‘
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔