تعلیمی اداروں میں محبت اور نفرت کی نئی لہریں
17 مارچ 2021بات اتنی بڑی نہیں تھی کیونکہ روز کتنے ہی ایسے محبوب بند کمروں، پارکوں کے گھنے درختوں کے نیچے، ہوٹلوں کے بند کیبنز اور اب تو ہوٹلوں کے صوفے کرسیوں پہ ایک دوسرے سے بغل گیر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر بات اتنی ہی بڑی تھی کہ اخلاقیات کے صنم خانے کا ایک بت منہ کے بل گرا ہے۔
جو کم از کم منافق معاشرے میں صنم خانوں میں سجا اس لیے اچھا لگتا ہے کہ پجاری بھی تو پوجا کرنے آتے ہیں اور پاک باز کہلاتے رام رام کرتے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس کے بعد کسی ہوٹل، کسی گلی، کسی گھر میں ہونے والے کہانی ان کی اپنی ہو تی ہے، جس کا کوئی گواہ نہیں ہوتا۔
ایک ٹیبو ٹوٹا ہے اور جب ٹیبوز ٹوٹتے ہیں اتنا ہی شور شرابا ہوتا ہے، جتنا ہو رہا ہے۔ اتنی ہی گالیاں دی جاتی ہیں جتنی دی جا رہی ہیں، اتنے ہی پتھر پڑتے ہیں، جتنے برس رہے ہیں۔ اتنا ہی اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے، جتنا دیا جا رہا ہے۔
کچھ دن قبل ایک نفسیات کی کتاب پڑھتے ہوئے علم ہوا کہ ہم نے تو تربیت کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی ہے، فطرت کے مقابل آ کھڑے ہوئے ہیں۔ سکول جانے سے پہلے کی تربیت کے باب میں لکھا تھا۔ بچوں کو آپ زیادہ روکا ٹوکا مت کریں، اسے غلطیاں کر نے دیں، ورنہ وہ سکول جا کے وہی غلطیاں کرے گا۔
لمس کے باب میں لکھا تھا لمس بچے میں احساس تحفظ عطا کرتا ہے۔ بچوں کو خوفزدہ کر کے کسی کام کی طرف راغب مت کریں۔
اب ہم نے کیا کیا ہے؟
ہم نے بچوں کو ان تمام امور سے روک دیا ہے اور تمنا کر رہے ہیں کہ وہ ستاروں سے آگے جہاں تلاش کریں۔
تو جب تک وہ تارے دکھائے گا نہیں، جہاں کہاں تلاش کرے گا؟
کبھی غور کیجیے گا کہ چھوٹا بچہ، جسے ہم نا سمجھ کہتے ہیں، فرط محبت میں کیسے بھاگتا ہوا آتا ہے اور گلے لگ جاتا ہے۔
بس اتنا سا ہوا ہے، بس اتنی سی کہانی ہے۔ کوئی صدیوں کا ہجر تھا، کوئی پل دو پل کی بات تھی۔ اخلاقیات کا بت ٹوٹا ہے مگر ہماری اخلاقیات تو اتنی سنگین ہیں کہ میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو سر عام کیا،گھر میں گلے نہیں لگا سکتے۔ زندگی میں کتنے ہی مواقع ایسے آتے ہیں، جب بچوں کی طرح بے ساختگی میں ان کا دل کرتا ہے ایک دوجے کے گلے لگ جائیں مگر ایسا نہیں ہو پاتا، یوں دونوں وقت کے ساتھ ساتھ اپنا احساس تحفظ بھی کھو دیتے ہیں اور خود پہ ضبط کر کے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔
پتھر کے دو پہاڑ، جو ساتھ ساتھ رہتے ہیں مگر گلے لگ کے نہ ہنس سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں۔
ہماری اخلاقیات تو ایسی ہیں کہ باپ بیٹی کو، ماں بیٹے کو، بہن بھائی کو، بھائی بہن کو گلے نہیں لگا سکتے۔ یہ تو پھر دونوں غیر تھے۔
مگر کیا ہم نے یہ نہیں سوچا کہ چلو بچوں سے اخلاقی غلطی ہو گئی مگر وہ شرعی رشتے میں بندھنے چلے تھے، انہیں معاف کر دیں۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس لڑکی نے پرپوز کر کے ایک 'سنت کو زندہ‘ کیا ہے۔
ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس لڑکی نے کتنی ہی لڑکیوں کو احساس تحفظ دیا ہے کہ بند کمروں میں محبت نچاور کر نے سے اچھا ہے کہ سر عام پرپوز کر دو۔ اس کو تم سے محبت ہو گی تو شادی کر لے گا ورنہ تم ایک بن باپ کے بچے سے بچ جاو گی۔ تب اگر یہ لڑکا کوئی غلطی کرے گا تو اسے کئی گنا زیادہ پھینٹی پڑے گی۔
ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس ایک غلطی نے معاشرے کوکتنی اور قباحتوں سے بچا لیا ہے؟ ہم زنا بالجبر کو تو معاف کر دیتے ہیں لیکن ایک 'اخلاقی غلطی‘ کو معاف کرنے کا ظرف ہم میں اس لیے نہیں ہے کہ سماج کے ٹھیکے داروں کی اخلاقی بھتے کی عمارت ٹوٹتی ہے۔
ہم نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اپنے بچوں کی خوف اور چھپن چھپائی میں تربیت کر کے انہیں نفسیاتی، سماجی ،اخلاقی مریض بنا چکے ہیں اور پچھلی شادی سے خوف زدہ نسل کے برعکس ایک نئی شادی کرنے کی خواہاں نسل آ رہی ہے تو اس کو تھپکی دیں۔ اس کے بعد اسے سمجھائیں کہ چلو نئے اور مناسب طریقے سیکھتے ہیں۔
ہم سکول کالج میں جنسی تعلیم دینے کے بھی خلاف ہیں، گھر میں ہماری اخلاقی شرم ختم نہیں ہوتی تو یہ بچے کہاں جائیں کیسے سیکھیں ؟ جب کہ ان کے پاس پوری دنیا ایک ٹچ پہ موجود ہے۔
یہ چھپ چھپ کر گندی مندی کہانیاں پڑھنے والی نسل نہیں ہے، اس نے انقلاب اور زوال و عروج کے مناظر دیکھے ہیں۔ ان کو ان کے دور کے مطابق پالنا ہے تو کچھ ہمیں بھی ان کے قریب آنا ہو گا۔
ایک طرف ہم نعرے لگاتے ہیں شادی آسان بنائیں، دوسری طرف ہم زنا کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ دل بڑا کیجیے۔ جو آپ کو نہیں ملا، وہ اپنے بچوں کو دینے کی کوشش کیجیے، آپ کی منزلیں بھی آسان ہو جائیں گی۔ ہم جہیز پہ بات کرتے ہیں، گھر آ کر رشتوں کے بہانے لڑکیوں کو قربانی کے بکرے کی طرح دیکھنے والے مرد و خواتین پہ آہیں بھرتے ہیں، غیر شادی شدہ حاملہ لڑکیوں کو بے عزت کرتے ہیں مگر شادی کی بات کو سر عام کرنے پہ بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جب ایک لڑکی ٹرالی لے کر درجنوں رشتہ دیکھنے آنے والوں کے سامنے جاتی ہے اور ہر مرد و عورت اس کا سر سے پاوں تک ایکسرے کر رہے ہوتے ہیں، تب اخلاقیات کہاں سو رہی ہوتی ہیں؟
سکول کالج میں جنسی تعلیم پہ بات نہ ہو مگر وہاں پستول جا سکتا ہے۔ دوسری بڑی حقیقت ایک کالج میں ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے کو اور اس کی بہن کو گولی مار کر ان کی لحد تک پہنچا دیا۔ لیکن یہاں سب خاموش ہیں، یہاں کوئی اخلاقیات کا درس نہیں دے رہا، کوئی ادارے کو الزام نہیں دے رہا، کوئی بات ہی نہیں کر رہا اور نہ تربیت پہ بات ہو رہی ہے۔
بس ایک آواز گونج رہی ہے "اوئے مر گئی ۔۔۔۔ "
ہمیں یہ آواز بہت اچھی لگتی ہے کہ مر جاو ، مگر ہمارے صنم خانے کے بت مت گراو۔
محبت اور نفرت کی یہ دونوں داستانیں ایک ہی ہفتے میں، ایک ہی شہر میں، ایک سے تعلیمی اداروں کی شہہ رگ پہ بپا ہوئی ہیں۔ مگر دونوں مین معیارات مختلف ہیں، حالات مختلف ہیں، جذبات مختلف ہیں۔
پہلا واقعہ صنم خانے کے بت ٹوٹنے کا ہے دوسرا پرانے بت کے فخر کا ہے۔ ایک محبت اور زندگی کی علامت ہے، دوسرا نفرت اور موت کی علامت ہے جبکہ جذبہ دونوں طرف ایک ہی ہے، شدت کا جذبہ ۔
ہم اپنی بنائی اخلاقیات کے اتنے پابند ہو چکے ہیں کہ نہ دین کے رہے ہیں، نہ دنیا کے۔ بس ہمارا سب کچھ ہماری غیر فطری اخلاقیات ہیں۔ اچھا ہوا کووڈ کا بہانہ کر کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا۔ مگر ان دونوں واقعات پہ اس دوران سوچیے گا!
ایک طرف دو جنازے ہیں ایک طرف گود میں بچہ، جو امید کی کرن ہے، جو زندگی کا سورج ہے۔