1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

تعلیمی ادارے کے حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، طالبان

22 اکتوبر 2022

طالبان فورسز نے شدت پسند عسکری تنظیم داعش کے چھ مبینہ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔

Afghanistan, Panjshir | Widerstandskämpfer gegen die Taliban bei einem militärischen Training
تصویر: Jalaluddin Sekandar/AP/picture alliance

گزشتہ شب افغان حکام کی جانب سے کی گئی ایک کارروائی میں داعش کے چھ مبینہ ارکان مارے گئے ہیں، جو ایک افغان تعلیمی ادارے پر خودکش بم حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔

رواں سال 30 ستمبر کو ایک خودکش بمبار نے کابل کی ایک یونیورسٹی کے خواتین کے لیے مختص اسٹڈی ہال میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جب سینکڑوں طالبات یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ٹیسٹ دے رہی تھیں۔ اس دھماکے کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 56 افراد، جن میں 46 خواتین شامل تھیں، ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری تاحال کسی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی لیکن افغان حکام کا کہنا ہے کہ ایجوکیشنل سینٹر کے اس حملے اور ماضی قریب میں افغانستان میں ہونے والے دیگر حملوں میں داعش ملوث ہے۔

افغان حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان فورسز نے گزشتہ شب ایک آپریشن کے نتیجے میں داعش کے چھ مبینہ ارکان کو ہلاک اور دو  کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''داعش کے یہ تمام دہشت گرد، جو مارے گئے، افغانستان میں ہونے والے کئی حملوں، جن میں وزیر اکبر خان مسجد اور خاج ایجوکیشنل سینٹر کا حملہ شامل ہیں، کے ذمہ دار تھے۔‘‘

شمالی افغانستان میں ہزارہ اقلیت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

02:57

This browser does not support the video element.

23 ستمبر کو کابل کے سابق گرین زون کے قریب وزیر اکبر خان مسجد کے سامنے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے کئی سفارت خانے موجود تھے۔ تاہم 23  ستمبر کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری بھی اب تک کسی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔

افغانستان میں جنگ کے اختتام اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے کابل سمیت مختلف شہروں میں بم دھماکے ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد دھماکوں کی ذمے داری 'اسلامک اسٹیٹ‘ گروپ کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ یہ گروہ افغانستان کے دشت برخی علاقے میں شدید حملے کرتا رہا ہے۔ دشت برخی کا یہ علاقہ ملک میں موجود شعیہ ہزارہ برادری کا گڑھ مانا جاتا ہے، جنہیں داعش کے ارکان اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔

افغان حکام کے مطابق ملک میں داعش کو شکست کا سامنا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اب بھی طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان اور آئی ایس کے ارکان سنی اکثریت سے تعلق رکھنے کے باوجود نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے کے حریف مانے جاتے ہیں۔

ر ب/ ا ا (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں