پاکستان کی اعلٰی تعلیم تباہی کے دہانے پر؟
1 جولائی 2024تعلیمی بجٹ دو فیصد سے بھی کم
پاکستان بھر کی جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں پاکستان کے تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے پانچ فی صد تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔
اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے اپنے منشور میں تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک لانے کا ووٹروں سے عہد کیا تھا، ''بدقسمتی سے یہ تینوں جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اس وعدے کو پورا کرنے پر تیار نہیں اور اس بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم ملک کے جی ڈی پی کے دو فیصد سے بھی کم ہے۔ ملک کے اہم ترین سیکٹر کو نظر انداز کرنے کی ایسی پالیسیوں کی وجہ سے اعلٰی تعلیم کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ لائبریریوں کے لیے نئی کتابوں کا حصول اور تجربہ گاہوں کے لیے آلات تو دور کی بات ہے، اب یونیورسٹیوں کے لیے اپنے اساتذہ کو بروقت تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں یہ صورتحال ایک ایسے موقع پر دیکھنے میں آ رہی ہے، جب نوجوان بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، اچھے اساتذہ سرکاری جامعات کو خیر آباد کہہ کر نجی شعبے کو جوائن کر رہے ہیں۔
پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی سکیلڈ لیبر کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بے بسی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ پچھلے پانچ برسوں سے پینسٹھ ارب پر منجمد کر رکھا ہے حالانکہ اس دوران صرف اساتذہ کی تنخواہوں میں ایک سو ستر فی صد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ انہوں نے اس سال ملک کی 160 پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے لیے 126 ارب روپے مانگے تھے لیکن انہیں 25 ارب روپے دینے کا اعلان ہوا۔ بعدازاں ارکان پارلیمنٹ سے مسلسل رابطے کرنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ ایچ ای سی کو پچھلے سال جتنا ہی بجٹ دے دیا جائے، جبکہ اس ایک سال میں افراط زر کافی بڑھ چکا ہے۔
ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے بجٹ کا 35 فی صد وہ دیتے ہیں اور اس رقم کا 97 فی صد تنخواہوں میں چلا جاتا ہے،''نجی یونیورسٹیوں کی فیس سرکاری یونیورسٹیوں کی فیس سے دس گنا زیادہ ہے۔ ہم ایک ہزار روپے فیس بڑھانے کی بات کریں تو جلوس نکل آتا ہے۔‘‘
صوبائی حکومتوں کا رویہ بھی درست نہیں
اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے پاس چلا گیا تھا لیکن صوبائی حکومتوں کا رویہ بھی یونیورسٹیوں کے ساتھ درست نہیں۔ حالیہ بجٹ میں صرف سندھ حکومت نے 35 ارب روپے یونیورسٹیوں کے لیے رکھے ہیں۔ بلوچستان نے پانچ ارب جبکہ کے پی اور پنجاب نے بہت کم رقم ہائیر ایجوکیشن کے لیے رکھی ہے۔ سندھ حکومت نے اپنے ہائیر ایجوکیشن کے فنڈ سے تمام یونیورسٹیوں کے لیے رقوم مختص بھی کر دی ہیں لیکن پنجاب حکومت ہائیر ایجوکیشن کے فنڈز سے لیپ ٹاپ دینے اور دیگر ''سیاسی اہمیت کے کام‘‘ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
یونیورسٹیاں اور سیاستدانوں کی مداخلت
صوبائی حکومتیں کس طرح یونیورسٹیوں کو اپنی مرضی کی بھینٹ چڑھاتی ہیں، اس کی ایک مثال پنجاب یونیورسٹی بھی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کے ایک صوبائی وزیر اپنے حلقے چکوال میں پنجاب یونیورسٹی کی سہولتوں کی متمنی تھے۔
سماعت سے محروم پاکستانی بچوں کے لیے اسکول زندگی ہے!
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اپنے حلقے گوجر خان میں پنجاب یونیورسٹی کے سب کیمپس کی خواہش رکھتے ہیں۔ موجودہ گورنر فتح جنگ میں پنجاب یونیورسٹی کا کیمپس چاہتے ہیں۔
پنجاب کے ایک گورنر ایک خاص برادری کے لوگوں کو نوازنے کے لیے فنڈز کی فراہمی پر اصرار کیا کرتے تھے۔ اتنے کم بجٹ میں اتنی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش بھی اس جامعہ کو مالی طور پر عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔
بیوروکریسی کا سرخ فیتہ
ایک سرکاری یونیورسٹی کے افسر خزانہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ حکومت ہائیر ایجوکیشن کو فنڈز دینا ہی نہیں چاہتی، ''ایک تو یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ میں مختص فنڈز واپس لے کر کسی دوسری مد میں خرچ کر لیے جاتے ہیں۔ پھر یہ فنڈز توڑ توڑ کر قسطوں میں جاری کئے جاتے ہیں۔ ان کی ادائیگی بہت تاخیر کے ساتھ آخری تاریخوں میں کی جاتی ہے، جس سے کسی منصوبے کے لیے ٹینڈرنگ کا پراسس بر وقت مکمل نہیں ہو پاتا اور یوں یہ فنڈز بھی خرچ ہو جانے سے رہ جاتے ہیں۔ جہاں مستقل وائس چانسلر نہ ہو۔ حکومتیں ایڈہاک ازم کی بنیاد پر جامعات کو چلا رہی ہوں، وہاں کسی یونیورسٹی کے لئے بروقت فنڈز حاصل کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔‘‘
یونیورسٹیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب جامعات کو حکومتی امداد پر انحصار کم کرتے ہوئے مخیر اداروں، ایلومینائی ایسوسی ایشنز اور سرمایہ کاری کی مدد سے ایسے انڈولمنٹ فنڈز بنانا ہوں گے، جن کے ذریعے یونیورسٹیوں کو مالی مدد میسر آ سکے۔
ان کے مطابق اس ضمن میں جی سی یونیورسٹی کا ماڈل قابل تقلید ہے، جہاں پر انہوں نے اپنے اخراجات سے بچت کر کے ایک اعشاریہ پانچ ارب روپے کا انڈولمنٹ فنڈ قائم کیا تھا۔ اس کے علاوہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام اور فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنا کر اور گڈ گورننس کو یقینی بنا کر بھی مالی بحران کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہائیر ایجوکیشن پر اٹھنے والے اخراجات بہترین سرمایہ کاری ہے، جس سے ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
سائنسی تحقیق میں فراڈ کا بڑھتا ہوا رجحان
گورو نانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب کے وائس چانسلر ڈاکٹر افضل چوہدری کا خیال ہے کہ ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں مستقل پالیسیاں اپنا کر اور اس شعبے کے فنڈز کی واپسی پر پابندی لگا کر بھی بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
غریب طلبہ کا سہارا چھن سکتا ہے
ابلاغیات کے ایک طالب علم صداقت حسین نے بتایا کہ سرکاری یونیورسٹیاں غریب اور متوسط طبقوں کے لیے حصول تعلیم کا ذریعہ ہیں۔ اگر یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے نہ نکالا گیا ہے تو ڈر ہے کہ طلبہ کی فیسیں بڑھا دی جائیں گی جبکہ ہاسٹلوں کے اخراجات پہلے ہی زیادہ ہیں،''اللہ ایسا وقت کبھی نہ لائے کہ صورتحال خراب ہو، مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ایک مرتبہ ننکانہ صاحب میں دسویں جماعت کی فیس کے پیسے نہ ہونے پر میرے ہی ایک ہم جماعت نے موبائل شاپ لوٹ لی تھی۔‘‘
ایچ ای سی کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد کہتے ہیں کہ نوجوان ملک کے لیے سونے کی کان کی حیثیت رکھتے ہیں، ''مغرب میں آبادی کی منفی گروتھ کی وجہ سے وہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ پچھلے دو برسون سے یورپ میں ہونے والے اوپن میرٹ مقابوں میں امریکہ، چین اور یورپ کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیادہ سکالرشپس ہمارے بچے حاصل کر رہے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت ان نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑے۔ یہی نوجوان ملک کی تقدیر بدل سکیں گے۔‘‘