یونیورسٹی کا امتحان دیتے ہوئے اپنے بچے کو گود میں اٹھائے ایک افغان خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ جس کے بعد اس خاتون کو مزید اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے بین الاقوامی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔
اشتہار
جہاں تاب احمدی افغان شہر نیلی کی نصیر خسرو یونیوسٹی میں داخلے کا امتحان دے رہی تھی، جب اس یونیورسٹی کے ایک اہلکار نے ان کی یہ تصویر لی اور سوشل میڈیا پر شائع کر دی۔ اس تصویر میں احمدی ایک اور طالبہ کی کرسی کے سائے میں بیٹھی اپنے بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ امتحانی پرچہ حل کر رہی ہیں۔ اس تصویر نے برطانیہ میں قائم افغان نوجوانوں کی تنظیم، ’ افغان یوتھ ایسو سی ایشن‘ کو بھی متاثر کیا اور اس کے اراکین نے اس طالبہ کی مدد کا ارادہ کر لیا۔ اس تنظیم نے ’گو فنڈ می‘ مہم کے ذریعے اس طالبہ کے لیے اب تک گیارہ ہزار پاؤنڈز جمع کر لیے ہیں۔ یہ تنظیم اس رقم کو احمدی کو فراہم کرے گی جسے کابل یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا ہے۔
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
8 تصاویر1 | 8
افغان یوتھ ایسو سی ایشن کے سیکرٹری جنرل شکریہ محمدی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’مجھے یقین ہے کہ احمدی کی تصویر اور اس کی مدد کرنے کی ہماری کاوش دنیا بھر میں لڑکیوں کو متاثر کرے گی اور انہیں یہ یقین دلائےگی کہ اگر آپ چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘‘ کئی دہائیوں سے جنگ سے نبرد آزما ملک افغانستان میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے گھر سے نکلنے پر بہت زیادہ سختی کی جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گزشتہ برس اسکول نہ جانے والے 3.5 ملین افغان بچوں میں 85 فیصد لڑکیاں تھیں۔ محمدی کے مطابق وہ احمدی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ احمدی کے تین بچے ہیں جن میں دو ماہ کی وہ بیٹی بھی شامل ہے جو اس تصویر میں موجود ہے۔ احمدی کا شوہر پڑھا لکھا نہیں ہے اور اسی باعث اس کی بھی سوشل میڈیا پر اپنی بیوی کو پڑھنے کی اجازت دینے پر بہت زیادہ تعریف کی جارہی ہے۔ افغان سیاست دان فرخندہ زہرہ نے بھی احمدی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ زہرہ نے تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کو بتایا کہ انہوں نے احمدی کی چار سال کی فیس یکمشت ادا کر دی ہے۔
ب ج/ ا ا، تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
تعلیم کی لگن، روزانہ افغانستان سے پاکستان آنے والے بچے