1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

تعلیم سے محروم کروڑوں پاکستانی بچے، مستقبل میں نقصانات کیا؟

عصمت جبیں اسلام آباد
16 ستمبر 2023

پاکستان میں امسالہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک کی موجودہ آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سوا دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل ورکشاپ میں کام کرتے دو کم سن بچے
اسکول میں حصول تعلیم کی عمر میں محنت: پاکستان میں ایک موٹر سائیکل ورکشاپ میں کام کرتے دو کم سن بچےتصویر: DW/I. Jabeen

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی معیشت (PIDE) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جو اپنی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کے سب سے زیادہ تناسب والی ریاستوں میں سے ایک ہے، تقریباً 22.8 ملین یا دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں تو اسکول جانے کی ہیں مگر جو حصول تعلیم کے لیے اسکول نہیں جاتے۔

اسپین میں تارکین وطن: وعدے بہترین نوکری کے، مشقت کھیتوں میں

یہ تقریباً 23 ملین پاکستانی لڑکے لڑکیاں ملک میں پانچ سے لے کر سولہ برس تک کی عمر کے نابالغ شہریوں کی مجموعی تعداد کا 44 فیصد بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کا تقریباً ہر دوسرا بچہ پڑھائی کے لیے کسی بھی اسکول میں جاتا ہی نہیں۔ یوں مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک پاکستان اس حالت میں نہیں ہے کہ اپنی آج کی نابالغ نسل کی مناسب تربیت  کرتے ہوئے ان چیلنجز کا کامیابی سے سامنا کرنے کی تیاری کر سکے، جو اسے مستقبل قریب میں درپیش ہوں گے۔

پاکستان میں اکثر سرکاری اسکولوں کی حالت اور کارکردگی ناگفتہ بہ ہےتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

روزگار کی منڈی اور معیشت کے بحران

اقصادی منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق پاکستان اپنے ہاں پڑھائی سے محروم کروڑوں بچوں کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں لازمی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جائے گا، جو کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیں گے۔ ان میں سے شدید ترین بحرانوں کا سامنا معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی کو ہو گا۔

پاکستان: انسانوں کی اسمگلنگ سالانہ قریب ایک ارب ڈالر کا کاروبار

کئی تجزیہ کاروں کو شکایت ہے کہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے تعلیمی شعبے میں طویل عرصے سے پیدا ہو چکی اس ہنگامی حالت کے تدارک کے لیے کافی اور دیرپا عملی اقدامات نہیں کیے۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی ایک خاتون رہنما اور قومی اسمبلی کی سابقہ رکن مہناز عزیز نے کہا، ''مسئلے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسے بچوں کے لیے خصوصی منصوبے ہونا چاہییں۔ انہیں وظیفے دیے جانا چاہییں اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے۔‘‘

قلم، کتاب اور کھلونوں کی جگہ اوزار، چائلڈ لیبر بچپن چھین لیتی ہے

04:05

This browser does not support the video element.

تین عشروں سے تعلیمی شعبے سے منسلک مہناز عزیز کا کہنا تھا، ''مجھے اس شعبے میں کام کرتے تیس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔ پاکستان کو اب اپنے ایسے مسائل کے حل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ ہمارے پاس درست ڈیٹا ہونا چاہیے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر حکومت اور اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے معیاری تعلیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ خاص طور سے لڑکیوں کی تعلیم لازمی ہونا چاہیے۔‘‘

جنسی ہراسانی! خواتین کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ

مہناز عزیز نے اپنے آبائی علاقے کی مثال دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پنجاب کے ضلع نارووال میں میرے علاقے شکر گڑھ میں بچیوں کی تعلیم کا تناسب 80 فیصد ہے۔ یہ ایسے ممکن ہوا کہ ہم نے وہاں عوام کے ساتھ مل کر اس بات کو اولین ترجیح بنایا کہ بچے ہر صورت میں اسکول جائیں۔ تو تعلیمی شعبے میں جو کچھ شکر گڑھ میں ممکن ہو سکتا ہے، وہ پورے پاکستان میں بھی تو ہو سکتا ہے۔‘‘

’بات تعلیم کو ترجیح بنانے کی ہے‘

سماجی علوم کے ماہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک خاص کر امریکہ یا پھر یورپی یونین کے کسی رکن ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں آج کے پاکستانی معاشرے میں اگر ریاست نے اپنے فرائض ادا نہ کیے اور پرائمری اور ہائی اسکولوں میں تعلیم کی عمر کے کروڑوں بچوں کو ناخواندہ رہنے دیا، تو دس پندرہ سال بعد ملک میں جسمانی مشقت کرنے والے مزدوروں میں کروڑوں نئے مزدور شامل ہو جائیں گے۔ ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کو ایک دو عشرے بعد ہی اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت اور ماہر پیشہ ور کارکنوں کی کمی کا سامنا بھی ہو گا۔

یوم نوجوان: پاکستانی نوجوانوں کے مسائل

پاکستان کی معاشی صورتحال ’برین ڈرین‘ میں اضافے کا سبب

01:56

This browser does not support the video element.

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل فرمان اللہ نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج اکیسویں صدی میں جب کروڑوں پاکستانی بچے اسکول نہیں جائیں گے، تو دس پندرہ سال بعد وہی بچے ان پڑھ نوجوان ہوں گے۔ یہ انتہائی بری صورت حال ہو گی۔ پاکستان کو اپنی قومی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا چاہیے۔ تعلیمی شعبے کو اولین ترجیح دی جائے، تو مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ریاست نے جب ایٹم بم بنانے کو ترجیح دی، تو ایٹم بم بھی تو بن گیا تھا۔ اب اگر تعلیمی شعبے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے، تو یہ شعبہ بھی ترقی کیسے نہیں کرے گا؟‘‘

دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر لیکن حکومت کی فقط نعرے بازی

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں ہر بچے کے لیے تعلیم ریاست کی پہلی ترجیح کیوں نہیں ہے، فرمان اللہ نے کہا، ''اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو سکیورٹی اور دفاع ہمارے ملک کی پہلی ترجیحات ہیں۔ پھر جاگیردارانہ نظام ہے، جو اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ عام شہریوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ وسائل پر قابض جاگیرداروں کے اپنے بچے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال بعد کی دنیا یکسر مختلف ہو گی۔ تب اس میں وہ پاکستانی نوجوان فٹ نہیں ہو سکیں گے، جو اس وقت کم سن ہیں اور تعلیم سے محروم۔‘‘

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی خصوصی ضرورت ہےتصویر: Reuters/C. Firouz

’تعلیم کی حد تک تو ریاست ناکام ہو چکی‘

پاکستانی دارالحکومت میں گزشتہ بیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک نفیسہ محمود نے اس موضوع پر کھل کر گفتگو کی اور ریاست پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے لائے گئے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ریاست کی ذمے داری ہے کہ چھ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے۔ لیکن ہمارے ہاں تو سوا دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان شرمناک حالات میں ماضی قریب کے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مزید دس سال بعد تو صورت حال اور بھی پریشان کن ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہر دو سال بعد جب پاکستان میں بچوں کی تعلیم سے متعلق یونیسیف کی رپورٹ جاری ہوتی ہے، تو اس کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ جواب ہے: کچھ نہیں کرتی۔ اب بھی کچھ نہیں ہو گا۔ آرٹیکل پچیس اے کی حد تک تو ریاست ناکام ہو چکی ہے۔ عام والدین گھروں کے کرائے دیں، بجلی کے بل ادا کریں یا پھر بچوں کی فیسیں؟ تو وہ مجبوراﹰ بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں یا بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔‘‘

تعلیم ہماری ترجیح ہے ہی نہیں

بچہ اگر سکول ہی نہیں جانا چاہتا تو کوئی مسئلہ ہے

04:43

This browser does not support the video element.

نفیسہ محمود کے مطابق ایک اور پہلو بڑا خطرناک ہے، ''بچے اسکول نہیں جائیں گے، تو مدرسے جائیں گے، جہاں انہیں کھانا اور رہائش تو مفت مل جاتے ہیں مگر ان کا جسمانی اور جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں ایسے بچوں سے بھرے ہوئے مدرسوں کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی ہیں اور ملک میں خیرات اور چندے کی سوچ کو تقویت ملتی ہے۔ قومی بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاع پر ‌خرچ کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ پاکستانی اسکولوں میں تعلیمی معیار اب رہ کیا گیا ہے۔ لگتا ہے خود ریاست ہی جدید تعلیم کی دشمن ہو چکی ہے۔ ہر شعبے کے نصاب پر مذہبی تعلیمی اثرات نمایاں ہیں۔ اگر نئی نسل کو مستقبل کے لیے یوں تیار کیا جائے گا، تو کیا پہلے سے موجود سماجی، مالی اور اقتصادی بحران شدید تر نہیں ہوں گے؟‘‘

سرکاری تعلیمی پالیسیاں

معروف ماہر تعلیم اور سائنسدان ڈاکٹر اے ایچ نیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں معیاری تعلیم اب حکومت اور عوام دونوں میں سے کسی کی بھی ترجیح نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''عام والدین چاہتے ہیں کہ بچہ دس سال اسکول گیا ہو، تو اس کے ہاتھ میں کوئی ہنر بھی ہو جس سے وہ پیسے کما سکے۔ دوسری طرف حکومت نے سرکاری اسکولوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن تقریباﹰ ختم ہی کر دی ہے۔ اشد ضروری ہے کہ اسکولوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن دوبارہ شروع کی جائے۔ جو بچے اسکول جاتے ہیں، مگر یونیورسٹی نہیں جا سکتے، وہ کوئی نہ کوئی ہنر تو سیکھ سکیں تا کہ کم از کم پیشہ ور کارکن تو بن سکیں۔‘‘

کائنات کڈز۔ پاکستانی بچوں میں فلکیات کا شوق پیدا کرنے کی انوکھی کاوش

پاکستانی بچوں کے مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسوں میں بھیجے جانے کی ایک وجہ وہاں طلبہ کے لیے رہائش اور کھانے کی سہولیات بھی ہوتی ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

کون سا تعلیمی نظام اچھا، نجی یا سرکاری؟

ڈاکٹر اے ایچ نیر نے کہا، ''پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی تیاری پر کبھی سنجیدگی سے کام کیا ہی نہیں گیا۔ دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن بجٹ میں تعلیم کے لیے مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد سے زائد وسائل رکھے ہی نہیں جاتے۔ ملک میں ایک چوتھائی سے زائد پرائمری اسکول ایک دو کمروں اور ایک دو ٹیچرز پر مشتمل ہیں۔ ایک تہائی پرائمری اسکولوں میں بجلی، پانی اور چار دیواری بھی نہیں۔‘‘

تو پھر کیا کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نیر نے کہا، ''حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی اچھی تعلیم کے ریاستی اور عوامی مستقبل سے لازمی تعلق کو سمجھے اور اس شعبے میں بھرپور نئی سرمایہ کاری کرے۔ والدین بھی ہر حال میں بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے پاکستانی حکومت اور عوام دونوں کو نئی نسل کی تعلیم سے متعلق اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں