’ تعلیم ‘ مار سے نہیں پیار سے
19 فروری 2014 پاکستان میں حکومتی سطح پر اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے سال 2013 میں باقاعدہ طور پر قانون سازی کی گئی تھی۔ اس کے مطابق ملک بھر میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں بچوں کے لیے کسی بھی قسم کی سزا اور ان پر تشدد کی ممانعت کی گئی تھی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانے کے علاوہ قید کی سزا کا بھی تعین کیا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں اس قانون پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک سیل بنایا گیا ہے، جو طالب علموں اور والدین کی شکایات کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے اور کسی بھی وقت ٹیلی فون کے ذریعے ان سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس قانون سے اگر ایک طرف والدین اور طالب علم خوش ہیں تو دوسری طرف کچھ اساتذہ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ پشاور کے ایک سرکاری پرائمری سکول کے ٹیچر کا خیال ہے کہ بچے سزا کے ڈر سے سبق بہتر طریقے سے یادکرتے ہیں۔ ان کو حکومت کی طرف سے بنائے گئے قانون سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ مار کھانے کی وجہ سے بچے زیادہ محنت کرتے ہیں، اسکولوں میں مار پیٹ صرف اور صرف بچوں کی بھلائی کے لیے ہوتی ہے۔ا پنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ’’ کچھ ایسے بچے ہوتے ہیں جو کلاس کا ماحول خراب کرتے ہیں اور اساتذہ کا اخترام نہیں کرتے، اس قسم کے بچوں کو پابند رکھنے کے لیے تھوڑی بہت سزا کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
بلال خان اسکولوں میں جسمانی سزا کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود ایک باپ ہیں اور ان کے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بلال خان کے بقول بچوں کے ذہن ناپختہ ہوتے ہیں۔ مار پیٹ کے بجائے انہیں پیار اور محبت سے سمجھانا چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ سزاؤں پر پابندی کی تمام پالیسیوں کا نفاذ صوبے کے ہراسکول میں یقینی بنائے۔ بلال خان نے مزید کہا ’’ ڈانٹ ڈپٹ سمیت ہر طرح کی سزا پر پابندی لگانی چاہیے‘‘۔
پشاور شہر میں محنت مزدوری کرنے والے تیرا سالہ نوید کا کہنا ہے کہ وہ ایک مدرسے میں سبق پڑھتا تھا لیکن مدرسے کے اساتذہ کی مار پیٹ کی وجہ سے وہاں سے بھاگ نکلا اور ہمیشہ کے لیے پڑھائی چھوڑ دی ۔ ’’ جب میری غلطی نہیں بھی ہوتی تھی تو بھی استاد مجھے ڈنڈے سے مارتا تھا، بس اسی وجہ سے میں وہاں سے بھاگ گیا اور اب میں یہاں پر صفائی کا کام کرتا ہوں‘‘۔ نوید کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے استاد کی اس سزا کے بارے میں اپنے گھر میں بتایا کرتا تھا لیکن اس کے والدین نے کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے اسے مجبوراً پڑھائی چھوڑنی پڑی۔
پشاور کے نواحی علاقے ابدرہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر سلطان محمد کے مطابق ان کےا سکول میں کبھی لاٹھی کا استعمال نہیں ہوا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک تو حکومت کی طرف سے اس کی ممانعت کی جاتی ہے اور دوسرا وہ اس کے نقصانات سے اچھی طرح باخبر ہیں۔ ’’میرے خیال میں بچوں سے پیا ر کرنا چاہیے ان کو مارنا نہیں چاہیے، کیونکہ مارنے سے وہ ڈر جاتے ہیں اور پھر پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے۔ پرانے زمانے میں جب اساتذہ ہمیں مارتے تھے تو ہم اسکول نہیں جایا کرتے تھے اور دو دو دن اسکول تک سے غائب رہتے تھے‘‘۔
بچوں کے حقوق کے ادارے سپارک کے ریجنل منیجر جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی طرح ملک میں دوسری قومی اور بین الاقوامی تنظیمیں بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ ملک کے ہر اسکول اور مدرسے کے اساتذہ میں شعور پیدا کریں کہ بچوں کو دی جانے والی جسمانی سزایں ان کے مستقبل کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ’’ نا تو کوئی ایسی مثال ہےاور نا ہی کوئی ایسی رپورٹ ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ کسی بچےنے مار پیٹ یا تشدد کی وجہ سے سیکھا ہواور یا اس نے کوئی اعلی مقام حاصل کیا ہو۔ ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طور پر، میں یہی کہوں گا کہ بچوں کو مار سے نہیں پیار سے سمجھانا چاہیے، تشدد سے بچے سدھرجائیں گے، یہ بالکل غلط سوچ ہے‘‘۔
جہانگیر خان کے مطابق محکمہ تعلیم میں قابل اساتذہ کی بھرتی کرنے اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ کے ہاتھ سے نونہالوں کی باگ ڈور واپس لینا از حد ضروری ہے۔ جدید تعلیمی رجحانات سے واقف، تعلیمی نفسیات کے ماہر اور طلبا کو شفقت سے پڑھانے والے اساتذہ ہی ملک کے تعلیمی بحران کو کم کر سکتے ہیں۔