افریقی ممالک یورپ میں ہی اپنی کرنسیاں کیوں چھاپتے ہیں؟
27 مارچ 2022
آزادی کی کئی دہائیوں بعد بھی کم از کم چالیس افریقی ممالک کی کرنسیاں برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں چھپتی ہیں۔ امیر افریقی ممالک بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ کیا ایسا کرنا افریقہ کے لیے خطرہ نہیں ہے؟
اشتہار
گزشتہ جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈر میں ابھی تاخیر تھی۔
اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ گیمبیا ایک خودمختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔ کرنسی کسی بھی قوم کی شناخت کا ایک علامتی عنصر ہوتی ہے۔
تاہم گیمبیا اس معاملے میں تنہا نہیں ہے۔ افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک چھاپتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک میں۔
برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی 'ڈی لا رو‘، سویڈن کی 'کرین اے بی‘ اور جرمنی کی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔
یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتی ہے کہ تقریباﹰ تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔
اشتہار
کسی دوسرے ملک میں پرنٹنگ خطرہ ہے؟
کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔
سرد جنگ میں اربوں کے کرنسی نوٹوں کا محافظ جرمن تہ خانہ
وفاقی جرمن بینک نے سرد جنگ کے دور میں پندرہ ارب مارک کے متبادل کرنسی نوٹ اپنے ایک ’خفیہ‘ تہ خانے میں رکھے ہوئے تھے، جو آج کل ایک نجی میوزیم ہے۔ اٹھارہ مارچ 2016ء سے اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
زمین کے نیچے خفیہ دنیا
جب ساٹھ کے عشرے میں سرد جنگ اپنے نقطہٴ عروج پر پہنچی تو وفاقی جرمن بینک نے ہنگامی کرنسی محفوظ رکھنے کے لیے تہ خانوں کا ایک پورا نظام تعمیر کیا۔ اس منصوبے کو خفیہ اور دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جانا مقصود تھا۔ دریائے موزل کے کنارے ایک رہائشی علاقے میں نو ہزار مربع میٹر رقبے پر تین ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ کی مدد سے تین سو میٹر لمبی راہداریاں اور پندرہ سو مربع میٹر کا تہ خانہ بنایا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تہ خانے کا ’انتظام‘
مجوزہ رقبے پر ایک میڈیکل ڈاکٹر کی سابقہ رہائش کو بینک کے ملازمین کے تربیتی مرکز کی شکل دے دی گئی۔ اس ’تربیتی مرکز‘ کے معدودے چند ملازمین میں سے صرف سربراہ کو پتہ ہوتا تھا کہ اس تہ خانے میں رکھا کیا ہے۔ یہ کمرہ بھی اسی تہ خانے میں ہے اور قریب ہی بیوشل کے مقام پر واقع ایٹم بموں کے اڈے پر کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے ہنگامی دفتر کا کردار ادا کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تابکاری کا خوف
کسی جوہری حملے کی صورت میں تہ خانے کے اندر موجود عملے کے لیے یہ انتظام موجود تھا کہ وہ خصوصی لباس پہن کر اور گیس ماسک لگا کر خود کو تابکاری شعاعوں کے اثرات سے بچا سکتے تھے۔ ایک کمرے میں پانی کے ذریعے آلودگی ختم کرنے کا انتظام تھا۔ اس کے علاوہ ایک آلہ تھا، جس کی مدد سے تہ خانے میں موجود عملے پر تابکاری کے اثرات کو ماپا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
175 افراد کے لیے رہائش
یہ تہ خانہ محض ہنگامی کرنسی اور اُس کے محافظوں کی خفیہ پناہ گاہ ہی نہیں تھا۔ کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے 175 انسانوں کو بھی پناہ فراہم کرنا تھی۔ تہ خانے میں صحت و صفائی کی جو سہولتیں بنائی گئی تھیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارا انتظام صرف مردوں کے لیے تھا، عورتوں کے لیے نہیں۔ اندر موجود اَشیائے ضرورت کے ذخائر بھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ
اس جگہ سے تہ خانے کا عملہ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے اُستوار کر سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی فون کی چار اور ٹیلی پرنٹر کی دو لائنوں کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اربوں مالیت کی کرنسی تک جانے کا راستہ
ٹنوں وزنی فولادی دروازوں کے پیچھے پڑے کرنسی نوٹوں تک محض بینک کے انسپکٹرز کی رسائی تھی۔ وہی ان دروازوں کو کھولنے کے کوڈ سے واقف تھے۔ جو چند ایک چابیاں تھیں، وہ بھی تہ خانے کے اندر نہیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ان دروازوں کو اکثر کھولا جاتا تھا، وہاں پڑی رقم گننے کے لیے۔ رُبع صدی کے دوران غالباً ایک بھی کرنسی نوٹ ادھر سے اُدھر نہیں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
پندرہ ارب مارک کی متبادل کرنسی
کسی دشمن قوت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈوئچ مارک کے جعلی نوٹ گردش میں لانے کی صورت میں ان نوٹوں کو متبادل کرنسی بننا تھا، گو اس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ 1988ء میں یعنی سرد جنگ کے خاتمے سے بھی پہلے یہ ڈر جاتا رہا اور یہ کرنسی نوٹ تلف کر دیے گئے۔ تاریخی دستاویز کے طور پر ان میں سے محض چند ایک کرنسی نوٹ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اب ایک نجی عجائب گھر
اب اس تہ خانے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ عجائب گھر ایک جرمن جوڑے نے قائم کیا ہے۔ پیٹرا اور اُن کے شوہر مانفریڈ روئٹر ویسے تو ایک قریبی قصبے میں ایک بس کمپنی چلاتے ہیں۔ 2014ء میں اُنہوں نے یہ تہ خانہ اور اس سے جڑا احاطہ خرید لیا۔ یہ جرمن جوڑا بینکاروں کے سابقہ ’خفیہ تربیتی مرکز‘ کو ایک ہوٹل کی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
سیاحوں کے لیے باعث کشش
آج کل یہ تہ خانہ تحفظ کے دائرے میں آنے والی قومی یادگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ سیاح دور و نزدیک سے کوخم کے مشہور نیو گوتھک قلعے اور ازمنہٴ وُسطیٰ کے قدیم کوخم جیسے دیگر قابل دید مقامات کے ساتھ ساتھ اس تہ خانے کو بھی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ گروپوں کے لیے گائیڈڈ ٹورز کا انتظام تو پہلے سے ہی موجود ہے جبکہ اس سال ایسٹر کی تعطیلات سے لوگ انفرادی طور پر بھی گائیڈ کی مدد سے اس تہ خانے کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ سن 2018ء میں سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعدازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح نوٹ ٹرانسفر کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود 'ڈی لا رو‘ جیسی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں۔ ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔ مثال کے طور پر اب گھانا اپنے مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) تیار کرنے کے لیے جرمنی کی کمپنی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
یہ فرمیں اضافی طور پر قومی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات بھی تیار کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کی سکیورٹی انتہائی زیادہ ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔ علاوہ ازیں ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ نئے بینک نوٹوں کی مانگ میں کمی نے ڈنمارک کو بھی 2014ء میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔
لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے نقصانات بھی ہیں۔ کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے 'ڈی لا رو‘ کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔
کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی اسی براعظم میں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر اعتبار زیادہ ہو چکا ہے۔
شولا لاول ( ا ا / ع آ )
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔