چین نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف اپنے متنازعہ سکیورٹی کریک ڈاؤن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2014ء کے بعد سے تقریباﹰ تیرہ ہزار ’دہشت گرد‘ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
اشتہار
سنکیانگ میں جاری حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بیجنگ حکومت کو بین لاقوامی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق وہاں ’حراستی کیمپوں‘ میں دس لاکھ سے زائد ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان شہریوں کو رکھا گیا ہے۔
پیر کے روز چین کی اسٹیٹ کونسل اور چینی کابینہ نے ایک مرتبہ پھر حکومتی پالیسیوں کا مکمل دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف سنکیانگ میں جاری سخت پالیسیاں قانون کے مطابق ہیں۔‘‘
چین کی اسٹیٹ کونسل اور کابینہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’سنکیانگ طویل عرصے سے چینی سرزمین کا حصہ ہے لیکن دہشت گرد اور انتہاپسند فورسز نے اس علاقے کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے۔‘‘
اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک وائٹ پیپر کے مطابق، ’’سن دو ہزار چودہ سے سنکیانگ میں 1,588 تشدد پسند اور دہشت گرد گینگز کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ تقریباﹰ 13 ہزار دہشت گردوں کو گرفتار اور 2052 دھماکا خیز ڈیوائسز قبضے میں لی گئی ہیں۔ 30 ہزار سے زائد افراد کو تقریباﹰ پانچ ہزار غیرقانونی مذہبی سرگرمیوں کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ غیرقانونی مذہبی مواد کی تین لاکھ 45 ہزار سے زائد کاپیاں پکڑی گئی ہیں۔‘‘
اس میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں اور انتہاپسندی کو ختم کرنے کی کوششیں قانون کے عین مطابق کی گئی ہیں۔‘‘
دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض ’’ایغور نسل کو دبانے کے لیے سیاسی عذر‘‘ پیش کیا گیا ہے۔ جلاوطن عالمی ایغور کانگریس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس نام نہاد وائٹ پیپر کو جاری کرنے کا مقصد انتہاپسندانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے مقامی سطح پر حمایت حاصل کرنا ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اب سنکیانگ میں جگہ جگہ لگے پبلک سائن بورڈز خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی شہری پچاس برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل داڑھی نہیں رکھ سکتا اور مسلمان سرکاری ملازمین کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا بھی قانوناﹰ منع ہے۔
اے ایف پی کے مطابق چین میں سنکیانگ کی اکثریتی ایغور مسلم آبادی اب اسی طرح کی ’پولیس اسٹیٹ‘ اور ’اوپن ایئر جیل‘ میں زندگی گزار رہی ہے۔ صوبہ سنکیانگ کے اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ترک نژاد ایغور نسل سے ہے۔
ا ا / ا ب ا ( اے پی، اے ایف پی)
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔