1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقشمالی امریکہ

تقریبا ًنصف صدی قید کے بعد بے گناہی کا ثبوت اور جیل سے رہائی

21 دسمبر 2023

ایک امریکی عدالت نے 48 برس کی قید کے بعد ایک شخص کو قتل کے الزام سے بری کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا۔ یہ امریکہ میں غلط طور پر دی جانے والی سزا میں اب تک کی طویل ترین قید و بند ہے۔

گلین سیمنز
جب سن 1975 میں کلین سیمنز اور ایک شریک مدعا علیہ ڈان رابرٹس کو اس جرم کا قصوروار ٹھہرایا گیا اور دونوں کو موت کی سزا سنائی گئی، تو اس وقت سیمنز کی عمر 22 برس تھیتصویر: Doug Hoke/AP Photo/picture alliance

امریکی ریاست اوکلاہوما کے ایک جج نے ایک ایسے شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا، جو سن 1974 میں ہونے والے ایک قتل کے الزام میں تقریباً نصف صدی سے جیل میں قید تھے۔ امریکہ میں غلط طور پر سنائی جانے والی یہ اب تک کی طویل ترین سزا ہے۔

امریکہ: 20 برس بعد پاکستانی نژاد بوائے فرینڈ کی بےگناہی اور رہائی

ستر سالہ ملزم گلین سیمنز کو جولائی میں اس وقت رہا کر دیا گیا تھا، جب ایک جج نے اس مقدمے کی از سر نو سماعت کا حکم دیا تھا۔

خاتون صحافی پر جنسی ہتھکنڈوں کا جھوٹا الزام، صدر کے بیٹے کو سزا

لیکن پیر کے روز کاؤنٹی ڈسٹرکٹ کے ایک اٹارنی نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ اس کے بعد منگل کے روز اوکلاہوما کاؤنٹی ڈسٹرکٹ کی جج ایمی پلمبو نے اپنے ایک حکم میں سیمنز کو بے قصور قرار دے دیا۔

نیورمبرگ ٹرائلز کے 70 برس، پرانی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش

انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا، ''اس عدالت کو واضح اور پختہ شواہد سے پتہ چلا ہے کہ سیمنز کو جس جرم کے لیے قصوروار ٹھہرایا گیا، سزا سنائی گئی اور قید کر دیا گیا۔۔۔۔ اس کا ارتکاب تو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔''

گلین سیمنز کا کہنا تھا کہ قتل کی اس واردات کے وقت وہ اپنی آبائی ریاست لوزیانا میں تھے اور وہ شروع ہی سے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے رہے تھےتصویر: Doug Hoke/AP Photo/picture alliance

برداشت اور استقامت کا سبق

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق گلین سیمنز نے فیصلے کے بعد صحافیوں کو بتایا، ''یہ برداشت اور استقامت کا سبق ہے۔ آپ کسی کو یہ بتانے کی اجازت نہ دیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسا واقعی ہو سکتا ہے۔''

غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھنے والے سابق باکسر کارٹر انتقال کر گئے

گلین سیمنز اوکلاہوما سٹی کے مضافاتی علاقے میں شراب کی ایک دکان پر ہونے والی ڈکیتی کے دوران کیرولین سو راجرز نامی ایک شخص کے قتل کے الزام میں 48 برس، ایک ماہ اور 18 دن قید کی سزا کاٹی ہے۔

ڈی این اے لیبارٹری کے غلط نتائج، سینکڑوں سلاخوں کے پیچھے

 الزامات سے بری ہونے والے کیسز کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے 'نیشنل رجسٹری آف ایگزونریشنز' کے مطابق اس حساب سے وہ سب سے زیادہ عرصے تک قید میں رہنے والے ایسے ملزم ہیں، جنہیں الزامات سے بری کرتے ہوئے عدالت نے بے گناہ قرار دیا ہو۔

جب سن 1975 میں انہیں اور ایک شریک مدعا علیہ ڈان رابرٹس کو اس جرم کا قصوروار ٹھہرایا گیا اور دونوں کو موت کی سزا سنائی گئی، تو اس وقت سیمنز کی عمر 22 برس تھی۔

سزائے موت سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پیش نظر بعد میں ان کی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

گلین سیمنز کا کہنا تھا کہ قتل کی اس واردات کے وقت وہ اپنی آبائی ریاست لوزیانا میں تھے اور وہ شروع ہی سے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے رہے تھے۔

جولائی میں ایک ضلعی عدالت نے ان کی سزا کو یہ معلوم کرنے کے بعد ختم کر دیا تھا کہ استغاثہ نے، ایک گواہ کے دوسرے مشتبہ افراد کی شناخت کرنے سمیت، دیگر تمام شواہد دفاعی وکلاء کو فراہم ہی نہیں کیے تھے۔

گلین سیمنز اور رابرٹس کو اس نوجوان کی گواہی کی وجہ سے جزوی طور پر سزا سنائی گئی تھی، جس کے سر کے پچھلے حصے میں گولی ماری گئی تھی۔ تاہم اس نوجوان نے پولیس لائن اپ کے دوران کئی دوسرے مردوں کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔

اس کیس کے دوسرے ملزم رابرٹس کو سن 2008 میں پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔

ریاست اوکلاہوما میں، جن افراد کو غلط طور پر سزا سنائی گئی اور وہ زیادہ وقت تک جیل میں رہے ہیں ہوں، ایسے افراد 175,000 ڈالر تک کے معاوضے کے اہل ہیں۔

 سیمنز اس وقت جگر کے کینسر جیسی بیماری لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے 'گو فنڈ می' (کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے) اپنے علاج کے لیے ہزاروں ڈالر جمع کیے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

موت کی سزا پانے والے قیدی جیل میں کن مراحل سے گزرتے ہیں

04:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں