تقریبا 90 برس بعد جرمن فوج میں ربی کی بھرتی کا فیصلہ،
29 مئی 2020
ہٹلر نے سن 1933 میں یہودی مذہبی علماء (ربّی) کو جرمن فوج سے نکال دیا تھا جس کے بعد اب پہلی بار جرمن حکومت نے فوج میں مذہبی امور کے لیے یہودی ربیوں کی تقرری کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
جرمن اراکین پارلیمان نے جمعرات کو متفقہ طور پر اس قانون کی حمایت کی جس میں جرمن فوج میں یہودی ربیوں کی بھرتی کی دوبارہ اجازت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت جرمنی کی مسلح افواج میں یہودی فوجیوں کی مذہبی یا روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ربیوں کی بھرتی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ اس طرح تقریبا ًنوے برس کے بعد یہودی ربی جرمن فوج کا حصہ بن سکیں گے۔
اب تک تمام جرمن فوجیوں کو اپنے مذہبی امور کی تکمیل کے لیے پروٹیسٹینٹ یا پھر قدامت پسند کیتھولک عیسائی پادریوں سے ہی رجوع کرنا پڑتا تھا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جرمن وزیر دفاع اینیگریٹ کرامپ کرائن بور نے دسمبر 2019 میں اقدامات کیے تھے۔ ان کے اس پہل کا یہودی برادری سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ اس موقع پر وزیر دفاع نے پارلیمان میں کہا، ''یہودی فوجیوں کی خدمات کے اعتراف اور ان کے ساتھ یکجہتی کی یہ ایک خاص علامت ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ آج کل بڑھتے یہود مخالف معاشرے میں ربی بھی اب قابل قبول تعاون فراہم کر سکیں گے۔
جرمن وزیر دفاع نے اسے تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اگلا قدم ایک ایسے قانون کو متعارف کرانا ہے جس کے ذریعے فوج میں مسلم اماموں اور قدامت پسند عیسائی پادریوں کی تقرری کا بھی راستہ صاف ہوسکے۔
جرمن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق فوج میں تقریبا ًتین سو یہودی فوجی ہیں جبکہ مسلم فوجیوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے۔ فوجیوں کی کل تعداد ایک لاکھ 78 ہزار ہے جس میں سے تقریبا ًنصف یعنی 90 ہزار فوجیوں کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔ باقی فوجیوں نے یا تو اپنے مذہب کی شناخت نہیں کی یا پھر کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
بائیں بازو اور گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان نے حکومت سے مسلمان فوجیوں کے لیے اماموں کو بھی بھرتی میں تاخیر نہ کرنے پر زور دیا ہے۔
جرمن جیوش سینٹرل کاؤنسل کے صدر جوزیف سوشٹر نے پارلیمان کو بتایا کہ ربیوں کی بھرتی صرف یہودی فوجیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام فوجیوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا، ''فوجی ربیوں کے مشورے پوری جرمن فوج کے لیے ہوا کریں گے۔'' انہوں نے حکومت کے اس قدم کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے فوجیوں میں جمہوری طرز فکر اور سلوک کو بھی فروغ ملے گا۔
یہودی فوجیوں نے پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کے لیے جنگ لڑی تھی اور سن 1033 میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک جرمن فوج میں ربیوں کی موجودگی ایک عام بات تھی۔ لیکن جب ہٹلر نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس نے تمام یہودی ربیوں کو فوج سے نکال دیا۔
ص ز/ ج ا
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔