تمام فرانسیسی شہری، ادارے پاکستان سے چلے جائیں، سفارتی ہدایت
15 اپریل 2021
اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے نے فرانس کے تمام شہریوں اور اداروں کو فی الحال پاکستان سے چلے جانے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ ہدایت پاکستان میں اسی ہفتے ہونے والے فرانس مخالف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں کی گئی ہے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات پندرہ اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی سفارت خانے کی طرف سے پاکستان میں موجود فرانسیسی شہریوں اور اداروں کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا گیا ہے، ''پاکستان میں فرانسیسی مفادات کو لاحق شدید خطرات کے پیش نظر فرانس کے تمام شہریوں اور اداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ عارضی طور پر پاکستان سے رخصت ہو جائیں۔‘‘
ساتھ ہی اس ای میل میں کہا گیا ہے، ''(پاکستان سے) روانگی کا یہ عمل فی الوقت دستیاب معمول کی تجارتی پروازوں کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔‘‘
پاکستان میں فرانس مخالف جذبات
پاکستان میں فرانس کے خلاف عوامی جذبات اس وقت سے مشتعل ہیں، جب پیرس میں صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت نے ایک ایسے طنزیہ فرانسیسی جریدے کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا، جس نے پیغمبر اسلام کے وہ متنازعہ خاکے شائع کیے تھے، جنہیں بہت سے مسلمان ناپسندیدہ اور ہتک آمیز عمل سمجھتے ہیں۔ تب صدر ماکروں نے آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا ذکر کرتے ہوئے اس جریدے کے ایسے خاکوں کی اشاعت کے حق کا دفاع کیا تھا۔
سڈنی سے لے کر سان فرانسِسکو تک، دنیا کے تقریبا سبھی بڑے شہر پیرس حملوں میں مارے جانے والوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ان شہروں کی تاریخی و یادگاری عمارتیں بھی فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Reed
جرمنی دکھ میں برابر کا شریک
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی مقام برانڈن بُرگ گیٹ بھی فرانس کے پرچم کے رنگوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ جرمن عوام کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی فرانس کے ساتھ دلی ہمدردی اور انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ برلن اور پیرس شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف لڑتا رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
روشنی، زندگی کی نئی امید
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسِسکو کے سٹی ہال کی بلڈنگ نیلے، سفید اور سرخ رنگوں سے روشن کر دی گئی۔ یہی تین رنگ فرانس کے پرچم کا حصہ ہیں۔ پیرس حملوں کے بعد امریکی حکومت نے فرانس کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تصویر: Reuters/St. Lam
’ آپ کے دلوں کے ساتھ ہمارے دل بھی شکستہ ہیں‘
آسٹریلوی شہر سڈنی میں قائم اوپرا ہاؤس کی تاریخی عمارت بھی پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس عمارت پر بھی فرانسیسی پرچم کے تین رنگ بکھرے ہوئے ہیں، یعنی نیلا، سفید اور سرخ۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’ہمارے دل ٹوٹ گئے ہیں لیکن ہمارے حوصلے کبھی پست نہیں ہوں گے‘۔
تصویر: Reuters/J. Reed
کینیڈا بھی مغموم
کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں واقع لینڈ مارک CN ٹاور بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگوں سے روشن کر دیا گیا۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹِن ٹرُوڈو نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں ان کا ملک فرانس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Helgren
’نفرت انگیز حملے‘
امریکی ریاست نیواڈا میں واقع روشنیوں کا شہر لاس ویگاس بھی اداس ہے۔ پیرس حملوں کے بعد’لاس ویگاس اسٹریپ‘ میں ’ہائی رولر‘ کی روشنیاں بھی نیلی، سفید اور سرخ رنگوں میں تبدیل کر دی گئیں۔ پیرس حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے اس بہیمانہ کارروائی کو نفرت انگیز حملوں سے تعبیر کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/E. Miller
چین کی طرف سے حمایت
شنگھائی کا ’اوریئنٹل پرل ٹی وی ٹاور‘ پر بھی ہفتے کی رات ایک گھنٹے کے لیے فرانس کا پرچم دکھائی دیا۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق پیرس حملوں پر چین کو ایک دھچکا پہنچا ہے۔ بیجنگ نے بھی فرانس کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
میکسیکو سٹی بھی فرانس کے ساتھ
میکسیکو سٹی نے بھی فرانس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔ وہاں واقع سیاحوں میں انتہائی مقبول Angel de la Independencia بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگ کی روشنیوں کے لباس میں پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ تعزیت کرتا رہا۔ ادھر پیرس میں ائیفل ٹاور سمیت دیگر تمام سیاحتی اور تفریحی مراکز کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Bravo
نیوزی لینڈ کی طرف سے تعزیت
نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کِی نے پیرس حملوں میں ہلاک ہو جانے والوں کے لیے خصوصی تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔ ان کی بیٹی پیرس میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ کا ’اسکائی ٹاور‘ بھی فرانسیسی پرچم کے رنگوں سے سجا دیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Ben-Ari
سکیورٹی میں اضافہ
میکسیکو سٹی کی سینیٹ بلڈنگ نے بھی فرانس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اپنی روشنیوں کا رنگ بدل لیا۔ اس بلڈنگ میں نیلا، سفید اور سرخ رنگ دکھائی دیا۔ فرانس نے کہا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں اپنی سرکاری عمارتوں اور سفارتی مشنز کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Bravo
تائیوان میں اداسی کی لہر
پیرس سے دس ہزار کلو میٹر دور تائیوانی دارالحکومت تائپی کی 101 نامی تاریخی بلڈنگ بھی نیلے، سفید اور سرخ رنگوں کی روشنیوں میں دکھائی دی۔ فرانسیسی طبی حکام کے مطابق پیرس حملوں میں تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 80 کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Reuters/P. Chuang
دکھ بانٹنا
امریکی شہر نیو یارک میں ’ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘ بھی فرانسیسی پرچم کے مانند دکھائی دیا۔ یہ ٹاور اسی اسکائی اسکریپر کے مقام پر تعمیر کیا گیا، جو گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں میں تباہ ہو گیا تھا۔ امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ پیرس حملوں میں کچھ امریکی شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان میں فرانس مخالف جذبات کا عالم یہ ہے کہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر آج جمعرات کے روز #FranceLeavePakistan کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔ جمعرات کی سہ پہر تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ 55 ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی تھیں۔
اشتہار
پاکستان میں فرانسیسی موجودگی کتنی؟
فرانسیسی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس کے آخر تک مقیم فرانسیسی شہریوں کی تعداد 445 کے قریب تھی اور 30 سے زائد فرانسیسی کاروباری ادارے ایسے ہیں جو پاکستان میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں اور اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم ایک فرانسیسی شہری لُوڈو وان وورین نے پاکستان میں اپنے ملک کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کے بارے میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم کچھ کچھ دھچکے کی کیفیت میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد ہم یہاں کوئی پکنک تو نہیں منا رہے تھے بلکہ بہت محتاط تھے۔ اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورت حال کس حد تک بدل گئی ہے۔‘‘
پیرس میں دہشت گردی کی سلسلہ وار کارروائیوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور دو سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے پیرس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
منظم حملے
پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ان منظم سلسلہ وار حملوں میں پیرس میں اور اس کے گرد و نواح میں سات مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد دو سو ہے، جن میں سو کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
خوف و ہراس
پیرس کے باتاکلاں تھیئٹر میں مسلح افراد نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جہاں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے اس تھیئٹر کو بازیاب کرا کے زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Valat
خون ریزی اور بربریت
سکیورٹی فورسز نے باتاکلاں تھیئٹر کا محاصرہ کرتے ہوئے جمعے کی رات مقامی وقت کے مطابق ایک بجے اسے مسلح افراد کے قبضے سے آزاد کرایا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے اپنی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب دھماکے
پیرس کے شمال میں واقع نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے تین دھماکوں میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے۔ جمعے کی رات جب یہ حملے کیے گئے، اس وقت جرمن قومی فٹ بال ٹیم فرانسیسی ٹیم کے خلاف ایک دوستانہ میچ کھیل رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ena
فرانسیسی صدر اولانڈ سکتے کے عالم میں
جب ان حملوں کی خبر عام ہوئی تو فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ فٹ بال اسٹیڈیم میں جرمنی اور فرانس کے مابین کھیلے جانا والا میچ دیکھ رہے تھے۔ بعد ازاں اولانڈ نے ان سلسلہ وار حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ایک مختصر نشریاتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi
سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی
ان حملوں کے فوری بعد پیرس میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی۔ پندرہ سو اضافی فوجی بھی پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیے جا چکے ہیں۔ حکام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تمام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Tribouillard
فرانسیسی شہری سوگوار
ان حملوں کے بعد فرانس سوگ کے عالم میں ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان پُر تشدد واقعات کے اختتام تک کم از کم 8 حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Ph. Wojazer
عالمی برادری کی طرف سے اظہار افسوس
عالمی رہنماؤں نے پیرس حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان حملوں کو دہشت گردی کی سفاک کارروائی قرار دیا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
امدادی کارروائیاں اور بے چینی
فرانسیسی میڈیا کے مطابق ان حملوں کے بعد پیرس میں سکیورٹی اہل کار اور امدادی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئیں۔ سکیورٹی اہل کاروں نے جمعے کی رات خوف و ہراس کے شکار لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں مدد بھی کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
امریکی صدر اوباما کا پیغام
پیرس حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ حملے پیرس یا فرانس پر نہیں ہوئے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف حملے ہیں۔ انہوں نے پیرس حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مشکل وقت میں واشنگٹن اس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Platiau
میرکل کا اظہار یک جہتی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ پیرس میں ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں شدید دھچکے کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ برلن حکومت پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
پاکستان میں سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک متنازعہ خاکوں کے معاملے میں ماضی میں بھی کافی مظاہرے کرتی رہی تھی۔ اس تحریک کے موجودہ سربراہ سعد رضوی نے حال ہی میں حکومت پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دینے کا مطالبہ کیا تھا اور ساتھ ہی اس تحریک کے کارکنوں نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی شروع کر دیے تھے۔
پرتشدد ہو جانے والے ان احتجاجی مظاہروں کے دوران گزشتہ چند روز میں پاکستان میں کم از کم دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی بھی ہو گئے تھے اور کروڑوں روپے کے مالی نقصانات بھی ہوئے تھے۔
اس دوران پاکستانی حکومت نے کل بدھ کے روز تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر قانونی پابندی بھی لگا دی تھی۔
م م / ا ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔