جرمن وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ملک میں تمام تر سیاسی مسائل کی جڑ مہاجرت کو قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کیمنٹس میں مہاجرین مخالف مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ ہمددری کا اظہار بھی کیا ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ ’تمام تر سیاسی مسائل کی ماں مہاجرت ہے‘۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی باویریا میں ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے رہنما ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ جرمنی میں پرانی سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ بھی اس بحران سے جڑی ہوئی ہے۔
زیہوفر نے رائنشے پوسٹ سے گفتگو میں کہا، ’’بہت سے لوگ اب اپنے مسائل کو مہاجرت کے مسئلے سے منسلک کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جرمن حکومت اپنی مہاجرین کی پالیسی کو تبدیل نہیں کرتی تو جرمنی کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت بتدریج کم ہوتی جائے گی۔
قدامت پسند خیالات کے حامل جرمن وزیر ہورسٹ زیہوفر نے کیمنٹس میں انتہائی دائیں بازو کے افراد کی طرف سے کیے گئے مظاہروں کی مذمت نہیں کی تھی، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
کیمنٹس میں ایک جرمن شہری کے قتل کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس میں مہاجرت مخالف جذبات ابھر کر سامنے آئے تھے۔ جرمن پولیس کے مطابق ایک جھگڑے کے نتیجے میں دو تارکین وطن افراد نے اس جرمن کو ہلاک کیا تھا۔ ان تارکین وطن کا تعلق مبینہ طور پر عراق اور شام سے بتایا گیا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی سے نہ صرف زیہوفر خائف ہیں بلکہ عوام کی سطح پر بھی میرکل اور ان کی سیاسی پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس پچیس ستمبر کے الیکشن میں میرکل کی سیاسی پارٹی کے علاوہ سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹی (ایس پی ڈی) کو ملنے والے ووٹوں میں واضح کمی نوٹ کی گئی تھی۔
اس تمام صورتحال میں مہاجرت مخالف جذبات کو ہوا دینے والی سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کو فائدہ ہوا اور اس انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی پارٹی نے جدید جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان تک رسائی حاصل کر لی۔ ناقدین کے مطابق اب یہ پارٹی دیگر مرکزی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔
اس تناظر میں جرمن وفاقی ویزر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اصرار کیا ہے برلن حکومت کو بالخصوص مہاجرین کے بحران پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی حمایت دوبارہ حاصل کی جا سکے۔ انہوں نے کیمنٹس میں ہونے والے مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ وزیر نہ ہوتے تو وہ بھی سڑکوں پر جا کر احتجاج کرتے۔
دوسری طرف چانسلر انگیلا میرکل نے کیمنٹس میں ’انقلابی مظاہرین‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے رواں ہفتے ہی سیکسنی کے وزیر اعلیٰ سے گفتگو کی اور اس صوبے کا دورہ کرنے کی دعوت بھی قبول کر لی۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہے کہ میرکل یہ دورہ کب کریں گی۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔