’تمام پاکستانیوں کے لیے امن اور خوشحالی چاہتی ہوں‘
1 جون 2015ہفتے بھر پر محیط اس دورے کے دوران جرمنی کے ارکان پارلیمان نے صدر مملکت ممنون حسین، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ وفد کے ارکان نے ٹیکسٹائل کے شعبوں سے وابستہ کاروباری شخصیات، سول سوسائٹی کے ارکان اور سینیئر صحافیوں سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس کا بھی دورہ کیا۔
اس دورے کے اختتام پر جرمنی کے وفد کی ایک اہم رکن بیربل کوفلر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ لاہور میں خصوصی بات چیت کی۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی گروپ کی ترجمان بیربل کوفلر سن دو ہزار پانچ سے اقتصادی تعاون اور ترقی کی کمیٹی میں کام کر رہی ہیں۔ وہ اس کے علاوہ خارجہ امور کی کمیٹی کی بھی رکن ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ پاکستان کا دوسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ سن دو ہزار دس میں بھی پاکستان آئیں تھیں لیکن تب وہ کراچی ، اسلام آباد اور پشاور ہی جا سکیں تھیں۔
جرمنی اور پاکستان کے مابین باہمی تعاون کا سلسلہ کئی عشروں پر محیط ہے۔ جرمنی پاکستان کے ساتھ انیس سو اکسٹھ سے مختلف شعبوں میں مل کرکام کر رہا ہے، خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں سے جرمنی پاکستان کو گورننس، توانائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔
بیربل کوفلر کے بقول اس دورے میں جہاں انہوں نے جرمنی کی مدد سے چلنے والے مختلف منصوبوں کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے، وہاں انہیں سرکاری شخصیات کے ساتھ ساتھ مختلف پس منظر کے حامل پاکستانی شہریوں سے بھی ملاقاتوں کا موقع ملا ہے، ’’ ہمیں اس دورے میں بہت سے بہادر ، ذہین اور اچھے لوگوں سے مل کر خوشی ہوئی لیکن یہاں شیلٹرز میں موجود عورتوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوجوان ورکروں سمیت ایسے لوگ بھی دیکھے، جن کی حالت بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جرمنی پاکستان کو توانائی کی پیداوار اور توانائی کے موثر استعمال کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ان کے بقول جرمنی کے پاس توانائی کے مسائل کے حل کا کافی تجربہ موجود ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو وسعت دینے کے بہتر امکانات موجود ہیں، ’’جرمنی پاکستان کو ووکیشنل ٹرینینگ کے میدان میں بھی کافی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ اس تعاون میں بھی مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جرمنی کے پاس ووکیشنل ٹرینینگ کا خصوصی نظام موجود ہے۔ ہم نے اس دورے کے دوران فنی تعلیم کے ایسے ادارے بھی دیکھے ہیں، جہاں کام کرنے والے کارکنوں کو بہت بہتر فنّی تربیت دے کر اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں گورننس کے مسائل کو حل کرنے، مقامی انتظامیہ کی کارکردگی میں بہتری لانے اور کمیونٹی کی سطح پر لوگوں کی بہتری کے حوالے سے بھی کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’ مجھے پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کا پارٹیوں سے بالاتر ہو کر خواتین کے مفاد کے لیے کام کرنا بہت اچھا لگا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے ویمن کاکس کی طرح کا اقدام جرمنی کی پارلیمان میں بھی نہیں دیکھا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ جرمنی میں ہم اس آئیڈیے سے کیسے استفادہ کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور جرمنی کی خواتین رکن اسمبلی کے مابین رابطوں کو فروغ دے کر انہیں باہمی تبادلہ خیالات کے بہتر مواقع فراہم کرنا بھی بہت اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس دورے کے دوران کسی شعبے میں تعاون کے فروغ کا کوئی معاہدہ بھی ہوا ہے، اس پر جرمنی کی رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا، ’’ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا ہے، ہم نے اس دورے میں پاکستان کے حالات اور جرمنی کے تعاون کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بہتر آگاہی حاصل کی ہے، یہ آگاہی آگے چل کر عملی اقدامات میں ڈھل سکتی ہے۔‘‘
پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’ہم یہاں بطور مہمان صرف چند روز کے لیے آئے تھے، اس لیے، محدود معلومات کی بنا پر ہم پاکستان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں سنا سکتے، لیکن ہمیں پاکستان آکر اچھا لگا ہے، یہ ایک ایسا ملک ہے، جس میں بہت پوٹینشل موجود ہے۔‘‘
کیا ان کو لاہور پسند آیا ؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’ہم اس دورے میں لاہور شہر کے بارے میں زیادہ تو نہیں جان سکے کیونکہ ہم یہاں چھٹیاں گزارنے نہیں بلکہ جرمن ٹیکس گزاروں کے خرچ پر سرکاری دورے پر آئے تھے اور ہمارا زیادہ وقت پہلے سے طے شدہ مصروفیات اور اجلاسوں میں ہی گزرا لیکن سڑکوں پر آتے جاتے ہم جتنا شہر دیکھ سکے وہ بہت اچھا تھا۔‘‘
اس دورے کے دوران سب سے زیادہ خوشی کا اور سب سے زیادہ مایوسی کا لمحہ کونسا تھا ؟ اس بارے میں انہوں نے کہا، ’’مجھے سب سے زیادہ خوشی نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی کے طلبہ سے مل کر ہوئی۔ ان کی پرفارمنس بہت خوب تھی، مجھے ان طلبہ کا کام بھی بہت اچھا لگا۔ لیکن دوسری طرف مجھے ایک ایسے بچے سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جو ایک کارخانے میں کام کرتا تھا اور اس سے مل کر مجھے یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں میں زندگی میں بہتری کی امیدیں مانند پڑتی جا رہی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ خواہش کرتی ہیں کہ آنے والا وقت پاکستان کے تمام لوگوں کے لیے امن اور خوشحالی لے کر آئے۔