امریکا کے انسداد دہشت گری کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ، شام سے بے دخل کردیے جانے اور اپنے رہنماوں کی ہلاکتوں کے باوجود، تقریباً 20 ذیلی تنظیموں کے ساتھ دنیا بھر میں مسلسل پاوں پھیلا رہا ہے۔
اشتہار
یو ایس نیشنل کاونٹر ٹیرارزم سینٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملر کا کہنا ہے کہ اس انتہاپسند گروپ نے پچھلے چھ برسوں کے دوران یہ ثابت کردیا ہے کہ ”وہ اپنے درمیانی سطح کے عمردراز وفادار کمانڈروں، کافی وسیع خفیہ نیٹ ورک اور انسداد دہشت گردی کے دباو کو اپنے حق میں موڑ دینے کی خوبیوں کی وجہ سے انتہائی نقصان سے دوچار ہونے کے باوجود دوبارہ کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔"
کرسٹوفر ملر نے جمعرات کے روز امریکی کانگریس کی داخلی سلامتی کمیٹی کو بتایا کہ اکتوبر 2019 میں اسلامک اسٹیٹ کے رہنما ابو بکر بغداد ی اور متعدد دیگر اہم افراد کی ہلاکت کے بعد سے اس شدت پسند تنظیم کے نئے رہنما محمد سعید عبدالرحمان المولا، دور دراز علاقوں میں موجود اپنی ذیلی تنظیموں کو ہدایت دینے اور نئے حملوں کے لیے حوصلہ افزائی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
جمعرات کے روز ہی اسلامک اسٹیٹ نے نائیجر میں 9 اگست کو چھ فرانسیسی امدادی کارکنوں اور ان کے دو مقامی گائیڈ کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ ایک تسلسل کے ساتھ قتل اور مورٹار اور آئی ای ڈی بموں کے حملے کررہا ہے۔ ان میں مئی میں کیا گیا وہ حملہ بھی شامل ہے جس میں درجنو ں عراقی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
امریکی انسداد دہشت گردی قومی مرکز کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ یہ شدت پسند گروپ حملوں میں اپنی کامیابیوں کی ویڈیوز کو پروپیگنڈا کے لیے جاری کرتا رہتا ہے تاکہ یہ ثابت کرسکے کہ گزشتہ برس شام اور عراق میں زبردست شکست کے باوجود جہادی اب بھی منظم اور سرگرم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شدت پسند گروپ نے اب شمال مشرقی شام کے حراستی کیمپوں میں قید اسلامک اسٹیٹ کے ہزاروں کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو آزاد کر انے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے، کیوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب تک کوئی مربوط بین الاقوامی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ شام اور عراق کے باہر اسلامک اسٹیٹ کی تقریباً 20 شاخیں اور نیٹ ورکس ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کے نتائج ملے جلے ہیں تاہم یہ افریقہ میں سب سے زیادہ مضبوط ہے، جس کا ثبوت نائیجر حملہ ہے۔
ملر نے بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ مغربی اہداف کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے تاہم موثر انسداد دہشت گردی اقدامات کی وجہ سے اسے ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ القاعدہ، جس نے 11ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے کیے تھے، اپنے رہنماوں اور اہم شخصیات کی ہلاکت کے بعد کمزور پڑ گیا ہے تاہم و ہ اب بھی ایک ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ گروپ امریکا اور یورپ پر حملہ کرنے کی کوشش میں ہے اور سعودی فضائیہ کے ایک زیر تربیت فوجی کو شدت پسندی کی طرف مائل کرنے کی کوشش اسی کا حصہ تھا، جس میں دسمبر 2019 میں فلوریڈا کے پینساکولا امریکی فوجی اڈے پر تین سیلرز کو ہلاک کردیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کاروائیوں کے ماہر کرسٹوفر ملر کے مطابق القاعدہ سے وابستہ تنظیمیں یمن اور افریقہ میں ہلاکت خیز حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم بھارت اور پاکستان میں موجود اس کے ذیلی گروپ واضح طورپر کمزور پڑ چکے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں اس کے جنگجووں کی تعداد چند درجن تک محدود ہوگئی ہے اور وہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔