’تمام یورپی ممالک مہاجرین کو قبول کریں ورنہ فنڈز میں کمی‘
24 جون 2018
اٹلی نے مطالبہ کیا ہے کہ یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو تمام رکن ملک میں تقسیم کیا جائے اور جو ممالک ایسا کرنے سے انکار کریں، انہیں یورپی یونین کی طرف سے فنڈ کی ادائیگی میں کمی کر دی جائے۔
اشتہار
اہم یورپی رہنماؤں نے چند روز بعد ہونے والے سربراہ اجلاس سے قبل برسلز میں ایک اہم ملاقات کی ہے۔ اس اجلاس میں خاص طور پر یورپی براعظم کو درپیش مہاجرین کے بحران پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یورپی رہنما مہاجرین کے معاملے پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی کوشش میں ہیں۔
آج کے اجلاس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، اطالوی وزیراعظم جُوزیپے کونٹے کے علاوہ لکسمبرگ، اسپین اور بیلجیم کے وزرائے اعظم بھی شریک ہوئے۔ یورپی یونین کی دو روزہ سمٹ اگلے ہفتے اٹھائیس اور انتیس جون کو ہو گی۔ اس سمٹ سے پہلے اٹلی نے دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ روم حکومت کے مطابق ان کے تجویز کردہ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
اٹلی کا کہنا تھا کی جو یورپی ممالک مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، اصولا ان کی مالی امداد کم کر دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ اٹلی اس ڈبلن معاہدے میں بھی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے، جو مہاجرین سے متعلق رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
تمام یورپی ممالک اسی معاہدے کے تحت مہاجرین کے ساتھ مناسب سلوک روا رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت جو مہاجر جس یورپی ملک میں پہلی مرتبہ پہنچتا ہے، صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا مجاز ہے۔ اٹلی کے مطابق اب یہ لکھا جانا چاہیے کہ ’جو اٹلی میں اترتا ہے، وہ یورپ تک پہنچ گیا ہے‘۔
اٹلی اور اسپین کا مشترکہ موقف ہے کہ امیگریشن سینٹر صرف اٹلی اور اسپین ہی میں نہیں بلکہ دیگر یورپی ممالک میں بھی قائم ہونے چاہئیں۔ اسپین نے یورپی یونین سے اپیل کی ہے کہ اس کے ملک میں ہزاروں افریقی مہاجرین پہنچ رہے ہیں اور اس کی جلد از جلد مدد کی جائے۔
اسپین نے اٹلی کی نئی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’یورپ مخالف‘ پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ فرانس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین سے متعلق جو فیصلہ بھی کیا جائے، وہ انسانی حقوق اور یورپی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے۔
جرمن حکومت کے مطابق آئندہ ہفتے کسی ایک حتمی معاہدے تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن فریقین ہنگامی مسائل سے نمٹنے کے لیے دو یا سہ فریقی معاہدے کر سکتے ہیں۔
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔