تمام یورپی کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت کا قانون، جرمن ہدف
12 جنوری 2019
یورپی یونین کے رکن کئی ممالک میں کارکنوں کے لیے کم از کم فی گھنٹہ اجرت کے قوانین تو پہلے ہی سے موجود ہیں لیکن اب جرمنی نے پوری یورپی یونین میں عام کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت کے ایک مشترکہ قانون کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر محنت ہوبیرٹس ہائل کے مطابق برلن حکومت نے یورپی یونین کی سطح پر عام کارکنوں کے لیے فی گھنٹہ کم از کم قانونی اجرت کے ایک نئے قانون کی منظوری کو اپنا ہدف بنا لیا ہے، جس کے لیے جرمنی کی طرف سے اس پورے بلاک کی سطح پر بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جرمن وزیر محنت ہائل نے کہا کہ یورپ کے اقتصادی اتحاد سے دیگر ممالک کی طرح جرمنی نے خود بھی بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن اس مثبت نتیجے کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ یونین کے رکن ممالک میں عام کارکنوں کو اپنے ممالک سے جا کر دوسری ریاستوں میں کام کر سکنے کا جو حق حاصل ہے، اسے آج بھی بہت زیادہ حد تک کارکنوں کے معاشی استحصال کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’محنت کا منصفانہ معاوضہ‘
ہائل نے کہا، ’’اسی لیے یہ ضروری ہے کہ یونین کی رکن تمام ریاستوں میں سماجی سطح پر ایک ہی طرح کی کم از کم فی گھنٹہ اجرتوں کا ایک ایسا مشترکہ قانون نافذ کیا جائے، جو اس استحصال کا راستہ روک سکے اور یورپی کارکنوں کو، چاہے وہ کسی بھی رکن ملک میں کام کر رہے ہوں، ان کی محنت کا ہمیشہ ایسا مالی معاوضہ ملے، جو منصفانہ ہو۔‘‘
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
اس بارے میں جرمن اخبار ’نوئے اوسنابروکر سائٹنگ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں جرمن وزیر محنت ہوبیرٹس ہائل نے ہفتہ بارہ جنوری کے روز کہا، ’’ہم دیگر رکن ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش کریں گے، جو یورپی کارکنوں کے لیے ان کی کم از کم فی گھنٹہ قانونی اجرتوں کا تعین کرتے اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ان کی خوشحال بقا کی ضمانت دے سکے۔‘‘
اگلا سال انتہائی اہم
جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک جماعت ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے اس سیاستدان نے زور دے کر کہا کہ اس حوالے سے جرمنی اپنے لیے چھ ماہ کے اس عرصے کو بنیادی اہمیت کا حامل بنائے گا، جب ہر ششماہی کے بعد بدلنے والی یورپی یونین کی صدارت اگلے برس جرمنی کے پاس آ جائے گی۔
جرمنی، جو پہلے بھی کئی بار یورپی یونین کا صدر ملک رہ چکا ہے، اگلے برس (2020ء) کی دوسری ششماہی میں ایک بار پھر اس بلاک کا صدر ملک بن جائے گا۔
اس بارے میں روزگار کے وفاقی جرمن وزیر ہائل نے کہا، ’’یورپی یونین کو مضبوط اور متحد اسی وقت رکھا جا سکتا ہے، جب ہم سماجی سطح پر بھی اس اتحاد کا عملی مظاہرہ کریں۔ اس سماجی اتحاد کی منزل صرف امن کو یقینی بنانے اور عام شہریوں اور کارکنوں کے لیے سماجی خوشحالی کی ضمانت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
روزگار اور پیشے
جرمن نوجوان سب سے زیادہ بزنس ایجوکیشن کی تربیت حاصل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے شعبے ایسے ہیں، جن میں تربیت حاصل کرنے کا ایک مزہ بھی ہے اور یہ فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ کی تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
کُوپر یا شراب کے ڈرم بنانے والا ’کپی گر‘
شراب کے ڈرم بنانا سیکھنا ایک غیر معمولی کام ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جرمنی میں بہت کم ہی نوجوانوں نے اس تربیت میں دلچسپی لی ہے۔ اس دوران لکڑیوں کی مختلف اقسام سے شراب محفوظ کرنے کے لیے ڈرم بنانا اور بالٹیاں تیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lösel
شراب کا ماہر
یہ تربیت مکمل کرنے والے کو شراب کشید کرنے کا ماہر کہا جاتا ہے۔ اس دوران یہ الکوحل کی مختلف اقسام کو تیار کرتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ کس مائع کو کتنے درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر ایسی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں، جہاں شراب تیار کی جاتی ہے۔ 2012ء سے اب تک اس شعبے میں صرف بارہ نوجوانوں نے دلچسپی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen
فولادی گھنٹیاں بنانے والا
پندرہ نوجوانوں نے ایک ہی سال میں فولادی گھنٹیاں بنانے کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس دوران انہیں سکھایا گیا کہ کس طرح مختلف اجزاء اور استعمال شدہ اشیاء کو دھات میں تبدیل کیا جاتا ہے، انہیں ٹھیک کس طرح کیا جاتا ہے اور انہیں دوبارہ قابل استعمال کس طرح بنایا جاتا ہے۔ یہ نوجوان گرجوں کی گھنٹیاں ہی نہیں بناتے بلکہ بحری جہازوں میں استعمال کی جانے والی گھنٹیاں بھی بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/K.-D. Gabbert
موسیقی پر اداکاری
اسٹیج کا پردہ ہٹا اور سرچ لائٹ آپ پر پڑی۔ اس دوران آپ نے گانا شروع کیا اور دیکھنے والوں نے تالیوں کی گونج میں داد دی۔ لیکن اسٹیج پر کھڑے ہو کر ایسی پرفارمنس دینا کوئی آسان کام نہیں اور یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں۔ موسیقی پر اداکاری کے گر سیکھنے کے لیے تین سال کی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اس دوران گانا اور رقص سیکھنا پڑتا ہے اور دوران تربیت کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Perrey
شہد کی مکھیاں پالنا
اس پیشے کو اختیار کرنے والے نوجوانوں کو شہد کی مکھیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں؟ ان کی بناوٹ اور ان کی نفسیات کےبارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ اکثر طالب علم انٹرمیڈیٹ کے بعد یہ تربیت شروع کرتے ہیں حالانکہ اس کے لیے انہیں انٹرمیڈیٹ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
وائلن گر
پیشہ ورانہ ترییت کے اس اسکول میں طالب علموں کو ریاضی اور طبیعات جیسے موضوعات میں سر کھپانا نہیں پڑنا بلکہ انہیں سیدھے سیدھے ان مادوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے جن کی مدد سے وہ ایک وائلن تیار کر سکتے ہیں۔ وائلن کو جن مادوں کی مدد سے چمکایا جاتا ہے، وہ ہر وائلن ساز کے ہاں الگ الگ ہوتی ہیں۔ یہی مادے اس ساز سے نکلنے والی آواز کو منفرد بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/PAP/J. Kacmarczyk
پتھر کا کام کرنے والے
یادگاروں کی تجدید ہو یا کوئی کتبہ بنانا ہو یا پھر پتھروں سے فرش بچھانا ہو پتھر کا کام سیکھنے والوں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس تربیت کے دوران قدرتی اور مصنوعی کے علاوہ ہر قسم کے پتھر کے ساتھ کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ لوگ فواروں اور مجسمے بنانےکے بھی ماہر ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. von Heydenaber
7 تصاویر1 | 7
جرمن وزیر انصاف بھی حامی
ہوبیرٹس ہائل سے قبل چانسلر میرکل کی قیادت میں موجودہ جرمن حکومت میں ہائل ہی کی جماعت کی ایک اور سیاستدان اور وفاقی وزیر انصاف کاتارینا بارلی نے بھی قریب چار ہفتے قبل یہی کہا تھا کہ یورپی یونین کی سطح پر کارکنوں کی کم از کم اجرتوں کا ایک مشترکہ قانون ہونا چاہیے۔
جرمنی میں چار برس قبل ایس پی ڈی ہی کی کوششوں کے نتیجے میں کارکنوں کے لیے کم از کم قانونی اجرتوں کا ایک قانون پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت کارکنوں کی اس سال یکم جنوری سے کم از کم فی گھنٹہ اجرت 9.19 یورو بنتی ہے، جو جنوری 2020ء سے بڑھ کر 9.35 یورو ہو جائے گی۔
بارہ یور فی گھنٹہ
اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اولاف شولس کی ایک تجویز تو یہ بھی ہے کہ جرمنی میں اس وقت 9.19 یورو فی گھنٹہ کی کم از کم قانونی اجرت کو بڑھا کر 12 یورو فی گھنٹہ کر دیا جائے اور پھر اس میں اگلے سال یکم جنوری سے اسی شرح سے مزید اضافہ کر دیا جائے۔
م م / ا ا / ڈی پی اے، اے ایف پی
مالدووا کے تنہا زندگی گزارتے بچے، ماں باپ کمانے چلے گئے
اپنے اعلانِ آزادی کے پچیس سال بعد بھی مالدووا آزاد اور خود مختار ملک بننے والی تمام سابق سوویت جمہوریاؤں میں سے غریب ترین ہے۔ بہت سے شہری روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جا چکے ہیں اور گھر پر اُن کے بچے اکیلے رہ گئے ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
پیچھے رہ گئے
تانیا نے پانچ سال پہلے اٹلی کا رُخ کیا۔ وہاں وہ بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور ماہانہ تقریباً 850 یورو کماتی ہے۔ پیچھے وطن میں اُس کی بیٹیاں بارہ سالہ اولگا، نو سالہ سابرینا اور آٹھ سالہ کیرولینا ایک مدت تک اکیلے رہتی رہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
ماں کے ساتھ فون پر باتیں
تانیا کی بیٹیوں کا ٹیلیفون پر اٹلی میں اپنی ماں کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ شروع میں اکیلے رہنے کے بعد یہ بچیاں اُن مختلف گھروں میں رہتی رہیں، جنہیں ان کی والدہ اٹلی سے ان کے خرچے کے لیے پیسے بھیجتی تھی۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
کھانے کی میز پر اکیلا پن
بارہ سالہ اولگا اب چسیناؤ میں اپنا اسکول ختم کر چکی ہے جبکہ سابرینا اور کیرولینا اٹلی میں ماں کے پاس جا چکی ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
دادی اماں کا ساتھ
گزرے سات برسوں میں کاتالینا کا زیادہ تر وقت ماں باپ کے بغیر ہی گزرا ہے، جو ملازمت کی تلاش میں پہلے ماسکو گئے اور پھر ورکنگ ویزا ملنے پر اٹلی منتقل ہو گئے۔ کاتالینا کی دادی پہلے ایک اور گاؤں میں رہتی تھی لیکن پھر وہ کاتالینا اور اُس کے بھائی وکٹر کے پاس چلی آئی۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
جدائی کے بعد ملن
اوتیلیا صرف بارہ برس کی تھی جب اُس کے والدین مالدووا چھوڑ گئے۔ اِس کے ماں اور باپ نے چار چار ہزار یورو دے کر اٹلی کے لیے قانونی دستاویزات حاصل کیں۔ اس ننھی سی بچی نے پھر پانچ برس تک اپنے ماں باپ کو نہ دیکھا اور دادی کے ساتھ رہتی رہی، جسے وہ ’ماں‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ ایک سال قبل ماں باپ کو اٹلی میں رہائش کا قانونی اجازت نامہ ملنے کے بعد یہ خاندان پھر سے اکٹھا ہو گیا۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
سخت محنت
لیلیا آٹھ سال قبل اپنے شوہر کے ساتھ مغربی یورپ چلی آئی۔ دونوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے لیے قرضہ لے کر جو پیسے ادا کیے تھے، اُس کی واپس ادائیگی کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ تب اُن کی بیٹیاں نادیہ اور علینا بالترتیب نو اور چھ برس کی تھیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
دُور سے جانے والے پارسل
لیلیا اپنی بیٹیوں کو مہینے میں تین پارسل بھیجا کرتی تھی۔ اب یہ کنبہ پھر سے اکٹھا ہو گیا ہے لیکن یہ ملن بہت مہنگا پڑا ہے۔ دونوں بیٹیوں کے ویزوں کے لیے انہیں پندرہ پندرہ سو یورو دینا پڑے ہیں۔
تصویر: Andrea Diefenbach/Kehrer-Verlag
بچپن ماں باپ کے بغیر
مالدووا کے ماں باپ کے بغیر پرورش پانے والے بچوں کی کہانی جرمن خاتون فوٹوگرافر آندریا ڈِیفن باخ نے اپنی کتاب ’والدین کے بغیر وطن‘ میں بیان کی ہے۔ جرمن زبان میں یہ باتصویر کتاب کیہرر پبلشرز نے شائع کی ہے۔