تنازعات سے بچ کر نکلنے والے مہاجرین کو بیماریوں کا خطرہ
عاطف بلوچ10 اپریل 2016
جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہو کر اور خطرناک مسافتوں کے بعد یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو مختلف بیماریوں کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق کچھ مہاجر کیمپ تو ’وباؤں کے ٹھکانے‘ بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اشتہار
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جراثیم کے پھیلاؤ اور مہاجر کیمپوں کی ابتر صورتحال کے باعث مختلف قسم کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں، جن سے نہ صرف یہ مہاجرین طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ یورپی باشندے بھی۔
نو اپریل کو ہالینڈ میں شروع ہونے والی ایک چار روزہ کانفرنس میں ویک اینڈ کے دوران یورپی طبی ماہرین نے اس حوالے سے مفصل بحث کی اور حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اس صورتحال میں فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان ماہرین کے مطابق مشکلات کا شکار اور طویل سفر کرنے کے بعد یورپ پہنچنے والے مہاجرین اپنے جسمانی مدافعتی نظام کی کمزوری کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور اگر اس صورتحال میں ان کے لیے حفظان صحت کے مناسب نظام کا بندوبست نہ کیا گیا تو اس تناظر میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس کانفرنس میں خبردار کیا گیا ہے کہ پینے کے صاف پانی، جراثیم سے پاک خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث یہ مہاجرین بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ خارش، خسرہ، تپ دق، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض اور وبائیں پھیل سکتی ہیں۔
موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
تصویر: DW/D. Cupolo
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
وبائی امراض کے ماہر ترک ڈاکٹر ہاکان لیبلے بشؤگلو نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بالخصوص مستقبل میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ’’تپ دق، پولیو اور خسرے کو بالخصوص مہاجرین اور بالعموم یورپی باشندوں کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے ممالک سے لوگ مہاجرت کر رہے ہیں، جہاں یہ بیماریاں عام ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ بہت سے ایسے مہاجرین یورپ میں یا اس براعظم میں پہنچنے سے قبل دوران سفر ایسے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جہاں حفظان صحت کا کوئی نظام نہیں ہے یا نہیں تھا۔ وہاں نہ تو مناسب ٹائلٹس کا انتظام ہے اور نہ ہی ہاتھ دھونے یا نہانے کا۔ ان مقامات پر مہاجرین کو پینے کے صاف پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ ادویات اور خوراک کی کمی کا بھی سامنا تھا۔
اس کانفرنس میں اس امر پر بھی بات کی گئی ہے کہ یورپی یونین کی مہاجرت کی پالیسی میں رابطہ کاری کے مسائل ہیں، جس کی وجہ سے نئے آنے والے مہاجرین کا کئی مراکز پر طبی معائنہ ہی نہیں کیا جا رہا۔
برطانیہ میں لیورپول اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن سے وابستہ ڈاکٹر نکولس بیچنگ نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف ممالک میں اس حوالے سے مختلف ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یورپی سرحدوں پر مہاجرین کا اچانک طبی معائنہ کیا جا رہا ہے تاہم اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نکولس بیچنگ کے بقول اس پوری صورتحال میں معاشرتی اور لسانی مسائل بھی درپیش ہیں کیونکہ بہت سے مہاجرین یورپی زبانوں سے ناواقف ہیں اور انہیں طبی عملے یا امدادی کارکنوں سے گفتگو میں مشکلات پیش آتی ہیں اور کئی مقامات پر مہاجرین کو معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ طبی مراکز سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔
اڈومینی کا مہاجر کیمپ ’ڈخاؤ کے اذیتی کیمپ جیسا‘
02:04
مہاجرین کے اس شدید بحران کی وجہ سے یورپ میں طبی نظام پر بھی بہت دباؤ پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس شعبے کے لیے مزید امدادی رقوم کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف کئی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ مہاجرین کی طرف سے مقامی یورپی آبادیوں کو بیماریاں منتقل کیے جانے کا خطرہ زیادہ نہیں ہے کیونکہ وہ عمومی طور پر یورپی عوام کے ساتھ زیادہ رابطے میں نہیں ہوتے بلکہ اپنی کمیونٹی میں ہی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس تناظر میں اس کانفرنس میں کہا گیا کہ حقیقی خطرہ مہاجرین کو ہی لاحق ہے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق احتیاطی تدابیر پر رقوم خرچ کرنے سے یورپی نظام صحت کو بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔